رمضان میں شیاطین قید رہتے ہیں تو پھر گناہ کیوں ہوتا ہے

سوال نمبر 825

 السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ماہ رمضان میں جیسا کہ حدیث شریف سے ثابت ہے تو پھر لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟ مع حوالہ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ بینوا توجروا
المستفتی:-- مولانا صدام حسین اشرفی 





وعلیکم والسلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المجیب الوھاب

اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سیدی استادی حضرت علامہ مولانا مفتی محمد معین الدین رضوی صاحب قبلہ  تحریر فرماتے ہیں ”اس سوال کے متعدد جوابا ت ہیں۔

    پہلاجواب 

یہ ہے کہ ایک دوسری روایت میں ہے ”صفدت مردۃ الشیاطین“ یعنی شرکش اور بڑے بڑے شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں عام شیاطین کھلے پھرتے ہیں جن کی وجہ سے گناہ ہوتے ہیں۔

    دوسرا جواب
یہ ہے کہ گمراہ کرنے والا ایک خارجی شیطان ہے اور ایک داخلی شیطان ہے جس کو ”لمہ شیطان قرین من الجن“ اور اردو میں اسے ہمزاد کہتے ہیں،خارجی شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے داخلی شیطان کو قید نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے لوگ گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں۔

      تیسرا جواب 
یہ ہے کہ شیطان کے گیارہ ماہ مسلسل بہکانے اور وسوسہ ڈالنے سے لوگوں میں اس کی وسوسے کا اثر اس قدر راسخ ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کی ایک ماہ کی غیر حاضری سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور لوگ بدستور برائی کے کاموں میں مبتلا رہتے ہیں الا ماشاء اللہ۔

    چوتھا جواب
یہ ہے کہ یہ اطلاق بھی مجازی ہے چونکہ اس ماہ میں بعض نیک طبع مسلمان شیطان کے اثرات اور اس کے وسوسوں کو قبول نہیں کرتے برائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور نماز روزہ اور دیگر نیکیوں میں بکثرت مشغول ہو جاتے ہیں اور نمازی اور نیک لوگ پہلے سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں جیسا کہ عام مشاہدہ ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے اور خیر کے غلبہ سے اس کے وسوسوں کا اثر کم پڑجاتا ہے اس لئے اس کو مجازاً تعبیر فرمایا کہ شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔

   پانچواں جواب
یہ کہ برائی میں مشغول لوگوں کو کم از کم اس ماہ مبارک میں تو یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ان کی غلط کاریوں اور بے راہ روی میں شیطان کے وسوسوں سے زیادہ خود ان کی ذات اور ان کے ارادوں کا دخل ہے کیونکہ اس ماہ مبارک جب شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں اور وہ پھر بھی برائی اور برے کاموں سے باز نہیں آ رہے تو مان لینا چاہئے کہ ان برائیوں کے وہ خود ذمہ دار ہیں شیطان ان سے جبراً برائی نہیں کراتا ہے اس کا ان پر کوئی تسلط نہیں ہے وہ صرف برائی کا ایک خیال ان کے ذہن میں ڈالتا ہے انہیں برائی کی تر غیبات دیتا ہے جیسا کہ نیک کام کرنے کا خیال اور اس کی ترغیبات ان کا ضمیر (لمہ رحمان) دیتا ہے اور جب وہ برے کام کرنے کا از خود ارادہ کرتے ہیں تو ان کا ضمیر ان کو مسلسل سرزنش کرتا رہتا ہے اور برائی سے روکتا رہتا ہے لیکن وہ ضمیر کی تمام تر فہمائشوں کو دور کرکے برے کاموں کو انجام دینے کی پورا منصوبہ بندی کرتے ہیں اس کی تمام تفصیلات مرتب کرتے ہیں اور پھر مسلسل اس برائی کو کرتے رہتے ہیں حتی کہ ضمیر (لمہ رحمان) کی آواز انہیں سنائی نہیں دیتی پھر برائی پر اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ کسی برائی پر آمادہ کرنے کے لئے انہیں شیطان کے بہکانے کی ضرورت نہیں رہتی وہ ہو یا نہ ہو وہ اپنے دھندے سے لگے رہتے ہیں جیسا کہ ارشاد با ری تعا لی ہے ”وقال الشیطن لما قضی الامر ان اللہ وعدکم وعدالحق ووعدتکم فا خلفتکم وماکان لی علیکم من سلطان الاان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلومونی ولوموا انفسکم ماانا بمصرخکم وماانتم بمصرخی“ یعنی جب (حشر کے دن) فیصلہ ہو چکے گا تو شیطان کہے گا بےشک اللہ تعالٰی نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا اور مجھے تم پر کچھ ملامت نہ کرو (بلکہ) اپنے آپ کو ملامت کرو (آج) تم نہ میری فریاد کو پہونچ سکتے ہو نہ میں تمہاری فریاد کو پہونچ سکتا ہوں۔ (سورہ ابرا ہیم ۲۲) تفصیل عمدۃ القاری و فتح الباری و مرقات وغیرہ میں ملا حظہ فرما ئیں۔
(فتاوی شراوستی جلد اول روزہ کا بیان)

واللہ اعلم بالصواب

      کتبہ 
فقیر تاج محمد قادری واحدی 
۱۵/ شعبان المعظم  ۱۴۴۱؁ھ






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney