ایک بیوی چار بیٹے اور پانچ بیٹیوں میں مال کیسے تقسیم کی جا ئے؟

سوال نمبر 904

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:-- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہو گیا اسکی ایک بیوی چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں اب مال کیسے تقسیم کیا جا ئے۔ بینواتو جروا    
المستفتی: مولانا وسیم القادری اترولہ





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب 
اگر قرض باقی ہو تو پہلے زید کے مال سے قرض ادا کیا جا ئے یونہی وصیت من الثلث نکالا جا ئے بعدہ پورے مال کا ۱۰۴/ ایک سو چار حصہ کیا جائے پھر اس کا آٹھواں حصہ یعنی ۱۳/ تیرہ حصہ بیوی کو دے دیا جائے کیونکہ اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ”وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ۔فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ“ اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو،پھر اگر تمہارے اولاد ہو، تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں، جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر۔(کنزالایمان،سورہ نساء آیت نمبر ۱۲)
بقیہ۹۱/اکیانوے حصہ میں۱۴،۱۴/چودہ چودہ حصہ لڑکوں کو دے دیا جائے،اور ۷/۷/ سات،سات حصہ لڑکیوں کو دے دیا جائے کیونکہ لڑکیوں کے بنسبت لڑکوں کا دو گنا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِ کُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ“ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں  برابر ہے۔(کنزالایمان،سورہ نساء آیت نمبر ۱۲)
واللہ تعالٰی اعلم باالصواب

       کتبہ
فقیر تاج محمد  قادری واحدی
۱۱/ رمضان المبارک  ۱۴۴۱؁ھ  
۵/مئی۰۲۰۲؁ء  بروز پیر






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney