حج کرنے گیا وہاں پر قربانی نا کرے تو کیا حکم ہے ؟

سوال نمبر 965

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ زید انڈیا سے حج کرنے گیا حج کے سارے امور کیے لیکن قربانی نہیں کیا وہاں سے فون کیا گھر والوں کو کہ قربانی کرا دو تو اس کے گھر والے نے قربانی کرادی اب زید کے گاؤں والے کہتے ہیں کہ زید کا حج نہیں ہوا اس لئے کہ اس نے وہاں قربانی نہیں کروائی تو کیا گاؤں والوں کا کہنا صحیح ہے۔؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل :- رضوان احمد قادری نیپال





وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب

 صورت مسئولہ میں زید کا حج ناقص ہوا کیونکہ شکرانے کی قربانی اس نے حرم میں نہیں کی جب کہ شکرانے کی قربانی حرم میں واجب ہے ۔ اس کے گھر والے چاہے جتنی قربانیاں کریں مگر وہ اداۓ واجب نہیں ہوسکتیں ۔ جب تک وہ حرم میں شکرانے کی قربانی نہ کرے ۔

جیسا کہ فقیہ عالم واعظم سیدنا اعلیحضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ تحریر فرماتے ہیں ،، اگر ہندوستان میں ہزار گائیں یا اونٹ کردیں ادانہ ہوگا کہ اس کے لۓ حرم شرط ہے ،، 

فتاوی رضویہ جلدچھارم صفحہ ٦٦٩

اورامام المحققین شیخ علاؤالدین محمد بن علی حصکفی علیہ الرحمةوالرضوان تحریر فرماتے ہیں ،، یتعین الحرم للکل  ،، 

درمختار مع شامی جلد دوم صفحہ  ٢٧٢

   للکل کے تحت سید محمد امین الشہیربابن عابدین شامی علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ہیں 

،،بیان لکون الھدی مؤقتا بالمکان سواء کان دم شکر او جنایة لما تقدم انه اسم لما یھدی من النعم الی الحرم اھ 

اور فقیہ اعظم ہند حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمة والرضوان تحریر فرماتے ھیں ،،اس قربانی  (شکرانےکی قربانی) کے لۓ یہ ضرور ہے کہ حرم میں ہو بیرون حرم  (قربانی)  نہیں ہوسکتی۔ اور سنت یہ کہ منٰی  میں ہو اور اس کا وقت دسویں ذی الحجہ کی فجر طلوع ہونے سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے مگر یہ ضرور ہے کہ رمی کے بعد ہو رمی سے پہلے کریگا تو دم لازم آۓ گا اور اگر بارہویں تک نہ کی تو ساقط نہ ہوگی بلکہ جب تک زندہ ہے اس کے ذمہ ہے ۔

بحوالہ لباب المناسک والمسلک المتقسط ،باب القِران ، فصل فی ھدی القارن والمتمتع صفحہ  ٢٦٣

بہارشریعت جلددوم حصہ ششم صفحہ ١١٨

اوراستاذالفقہاء حضورفقیہ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمدالامجدی البرکاتی علیہ الرحمةوالرضوان تحریرفرماتےھیں ،،  اور وطن میں اپنے نام قربانی کا انتظام کیۓ تو وہ قربانی ان کی جانب سے نفلی ہوگی ۔ کسی صورت میں گھر کی قربانی حج کے شکرانہ کی قربانی کا بدل نہیں بن سکتی کہ اس کےلۓ منٰی اور حدودحرم خاص ہیں ۔

جیساکہ ردالمحتار جلددوم صفحہ ١٩٣ پر حج کے شکرانہ کی قربانی کے بارے میں ہے  ،، یختص بالمکان وھوالحرم اھ  ،،

فتاوی فیض الرسول جلداول صفحہ ٥٤٠

ھکذافی فتاوی فقیہ ملت جلداول کتاب الحج صفحہ ٣٥٥

لھذا ___ جوحاجی اپنے گھر والوں کو فون کرکے شکرانہ اور دم کی قربانی کروائی تو وہ قربانی اس کی طرف سے صحیح نہیں ہوئی ۔ اس حاجی پراب بھی حرم میں شکرانہ اور دم کی قربانی واجب ہے ۔ جب تک وہ منٰی  یاحدودحرم میں قربانی نہ کرے گا واجب ادا نہ ہوگا اور اس وقت تک وہ گنہگار رہے گا ۔ اس کا حج معلق رہے گا ۔ 
تو ایسے لوگوں پرہے کہ جتنی جلدی ہوسکے واجب اداکریں اور توبہ واستغفارکریں ۔ 
واجبات کے چھوٹنے سے انسان گنہگار ہوتا ہے ۔اورحج نامکمل ہوتا ہے ۔ شرائط وفرائض کے چھوٹنے سے حج نہیں ہوگا ۔ 

وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب 

         کتبه 
العبد محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ 
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام 
بتھریاکلاں ڈومریا گنج 
سدھارتھنگر یوپی ۔
٢١   ذی القعدہ        ١٤٤١ھ
 ١٣       جولائی     ٢٠٢٠ ء






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney