سوال نمبر 1016
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ کافر سے گروی کھیت لینا کیسا ہے
سائل :-- سرورعلی فیضی گوراچوراہا بلرام پور
باسمہ تعالی جل جلالہ
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
شریعت مطہرہ نے عقد رہن کو مشروع فرمایا کہ قرض دہندہ کو اپنے روپیہ کا اطمینان ہو جائے اور وصول نہ ہونے کا اندیشہ دور ہو جائے
لھذا کافروں (حربی) سے گروی پر کھیت لینا اور زراعت کرنا بھی جائز ہے
جیسا سرکار اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہندو کی حقیقت رہن دخلی لینا اور اس سے منافع حاصل کرنا کوئی حرج نہیں مگر شرط یہ ہے کہ اپنے قرض پر نفع لینے یا سود کی نیت نہ کرے بلکہ یہ ہندو کی رضا مندی سے اس کے مال پر قبضہ جائز ہے اور اس مباح سے نفع حاصل کیا جاتا ہے حدیث شریف میں ہے
انما الاعمال بالنیات و انما لکل امرء ما نوی
بے شک عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی
فتاوی رضویہ جلد بست و پنچم صفحہ 254 مطبوعہ مرکز اھل سنت برکات رضا
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب العبد محمد عمران القادری التنویری غفرلہ
17 محرم الحرام 1442* 6ستمبر 2020
0 تبصرے