سوال نمبر 1030
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز پنجگانہ میں کون سی نماز سب سے پہلے کس نبی نے پڑھی ہے اور اگلے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اور اُن کی امتوں پر بھی یہی نماز پنجگانہ فرض تھی یا یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ہمارا خاصہ ہے۔ بینّوا توجروا۔
سائل میرخادم علی بہار
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب:
فجر کی نماز سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام،ظہر کی نماز سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام، عصر کی نماز سب سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام، مغرب کی نماز سب سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام اور عشاء کی نماز سب سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام پڑھی۔ جیسا فتاوی رضویہ شریف میں ہے کہ ان کے مطلق کئی قول ہے ان میں سے ایک دو پیش کرتا ہوں جسے اعلی حضرت نے بہتر کہا ہے وہ یہ ہے
سوم قول بعض علماء کہ فجر آدم، ظہر ابراہیم، عصر سلیمان، مغرب عیسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی اور عشاء خاص اس اُمّت کو ملی کما تقدم عن الحلیۃ (جیسا کہ حلیہ کے حوالے سے گزرا ہے۔ ت)
چہارم وہ حدیث کہ امام اجل رافعی نے شرح مسند میں ذکر فرمائی کہ صبح آدم، ظہر داؤد، عصر سلیمٰن، مغرب یعقوب، عشاء یونس علیہم الصلاۃ والسلام سے ہے
اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اقول: فقیر کی نظر میں ظاہراً قول اخیر کو سب پر ترجیح کہ اوّل تو وہ حدیث ہے لااقل اثر صحابی یا تابعی سہی اقوال علمائے مابعد پر ہرطرح مقدم رہے گی خصوصاً ایسے امر میں جس میں رائے وقیاس کو دخل نہیں۔
دوم قول امام ابوالفضل کہ سب سے پہلے فجر کو دو۲ رکعتیں حضرت آدم، ظہر کو چار رکعتیں حضرت ابرہیم، عصر حضرت یونس، مغرب حضرت عیسٰی، عشاء حضرت موسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی۔
(حوالہ فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ نمبر 67 تا 68 دعوت اسلامی۔)
اب رہی بات یہ کہ پانچ نماز اسی امت میں خاص ہے یا پہلے کے امتی پر بھی پانچ ہی نماز تھی تو اس کا جواب اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں
ابن ابی شیبہ مصنف اور ابوداؤد وبیہقی سنن میں بسند حسن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشا کی نسبت فرمایا: اعتموا بھذہ الصلٰوۃ فانکم فضلتم بھا علی سائر الامم ولم تصلھا امۃ قبلکم ۱؎۔
اس نماز کو دیر کرکے پڑھو کہ تم اس سے تمام امتوں پر فضیلت دئیے گئے ہو تم سے پہلے کسی اُمت نے یہ نماز نہ پڑھی۔
(۱؎سنن ابی داؤد باب وقت العشاء الاخرۃ مطبوعہ مجتبائی لاہور پاکستان آفتاب عالم پریس لاہور۱/۱۶)
تیسیر وسراج المنیر شروح جامع صغیر میں زیرِ حدیث وصلوا خمسکم
(اور پڑھو اپنی پانچ نمازیں۔ ت) لکھا:
اضافھا الیھم لانھا لم تجتمع لغیرھم ۴؎
(اپنی کہہ کر) پانچ نمازوں کو امت کی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ کسی اور اُمت کیلئے یوں جمع نہیں کی گئیں۔ ت)
اور علّامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: الصلوات الخمس لم تجتمع لغیرہ ولغیر امتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ولا لنبی قبلہ، فانما الانبیاء قبلہ کانت لھم صلاۃ موافقۃ لبعض ھذہ، دون مجموعھا ۲؎۔
پانچ نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کے علاوہ کسی اُمت کیلئے جمع نہیں کی گئیں، نہ آپ سے پہلے کسی نبی کیلئے۔ پہلے انبیاء کو جو نمازیں ملی تھیں تو ان میں سے ہر نبی کی نماز ان اوقات میں سے کسی ایک وقت کے ساتھ مطابقت رکھتی تھی، مجموع طور پر پانچ نمازیں اُن میں سے کسی کو بھی نہیں دی گئی تھیں۔ (ت)
(۲؎نسیم الریاض شرح الشفاء فصل فی تعظیمہٖ صلی اللہ علیہ وسلم بماتضمنہ کرامۃ الاسراء مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۲/۲۵۷)
(حوالہ فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ نمبر 48 دعوت اسلامی)
لہذا معلوم ہوا کہ پانچ نمازیں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
از قلم فقیر محمد اشفاق عطاری
0 تبصرے