مہر ادا نہیں کیا بیوی کا انتقال ہو گیا تو؟

سوال نمبر 1029

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
  میرا سوال یہ ہے ایک شخص اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا  اور نہ معاف کرایا تھا اور اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے ایسی صورت میں شریعت اس کے لیے کیا حکم دیتی ہے وہ مہر ادا کرے گا یا نہیں اور اگر ادا کرے تو اس کا طریقہ کیا ہے برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں؟ 
سائل محمد نزیر رضوی سنی جامع مدینہ مسجد پرگتی نگر  نالاسپارہ ایسٹ ممبئی مہاراشٹر






وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب:- اگر شوہر نے  بغیر مہر ادا کئے ہی انتقال کر گئے اور بیوی ہوش وحواس کی درستگی میں راضی خوشی مہر معاف کر دے، تو مہر معاف ہوجائے گا، ورنہ معاف نہ کرنے کی صورت میں بیوی مال متروکہ میں سے مہر پائے گی،، 
امراة عدت علي زوجها بعد موته ان لها عليه ألف درهم من مهرها فالقول قولها الى اتمام مهر مثلها عند ابى حنيفه رحمته الله عليه كذافى محيط السرخسى.

اور اگر بیوی کا انتقال پہلے ہوگیا اور شوہر نے مہر ادا نہیں کیا تھا تو اب شوہر وارثین کو ادا کرے۔اب یہ مہر ترکہ میں شامل ہوگا۔
(حوالہ فتاویٰ اکرمی صفحہ نمبر 276")

غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح میں ہے کہ کافی لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شوہر کے لئے ضروری ہے کہ نکاح کے بعد پہلی ملاقات میں اپنی بیوی سے پہلے مہر معاف کرائے، پھر اس کے جسم کو ہاتھ لگائے, یہ ایک غلط خیال ہے اسلام میں ایسا کچھ نہیں، مہر معاف کرانے کی کوئی ضرورت نہیں- آج کل جو مہر رائج ہے، اسے غیر معجل کہتے ہیں- جو یا تو طلاق دینے پر یا پھر دونوں میں سے کسی ایک کی موت پر دینا واجب ہوتا ہے، اس سے پہلے دینا واجب نہیں- ہاں اگر پہلے دے دے تو کوئی حرج نہیں- بلکہ نہایت عمدہ بات ہے، معاف کرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور مہر معاف کرانے کے لئے نہیں باندھا جاتا ہے، اب دے یا پھر دے, وہ دینے کے لئے ہے' معاف کرانے کے لئے نہیں-
ہاں اگر مہر معجل ہو، یعنی نکاح کے وقت نقد دینا طے کر لیا گیا ہو تو بیوی کو اختیار ہے کہ وہ اگر چاہے تو بغیر مہر وصول کئے خود کو اس کے قابو میں نہ دے، اور اس کو ہاتھ نہ لگانے دے، اور چاہے تو بغیر مہر لئے بھی اس کو یہ سب کرنے دے، معاف کرانے کا یہاں بھی کوئی مطلب نہیں-"
(غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح صفحہ نمبر 78)

     واللہ تعالیٰ اعلم
  از قلم فقیر محمد اشفاق     عطاری






ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. : اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
    حضرت عرض یہ کہ ایک کپڑے کی دکان ھندو کی ھے جس میں آگ لگ گٸ اور اسکا کچھ کپڑا لوگوں نے جو وہاں کھڑے تھے انہونے جلنے سے بچا لیا اور لوگ وہ کپڑا اپنے گھر لے گۓ اب اس کپڑے کو پہن کر نماز پڑھی تو کیا یہ درست ھے
    وضاحت فرمادیں مہربانی: ھندو کھڑا ھوا ھے لوگ اسکے سامنے لیکر جارھے ھیں وہ یہ نھیں کہتا کہ تم لوگ لے جاٶ اور منع بھی نہ کیا

    جواب دیںحذف کریں

Created By SRRazmi Powered By SRMoney