حدیث کی کتنی قسمیں ہیں اور منکر حدیث پر کیا حکم ہے؟

 سوال نمبر 1094


السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

علمائے کرام رہنمائی فرمائیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث کی کتنی قسمیں ہیں حدیث کے منکر پر حکم شرع کیا ہے کیا مطلقاً منکر حدیث پر حکم کفر ہے یا کسی حدیث کی تخصیص ہے؟ 

المستفتی غلام محمد یزدانی




 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب: صورت مسئولہ میں حدیث کے چند اقسام ہیں جو درج ذیل ہیں 


اقسام حدیث باعتبار اصل یعنی اصل کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) مرفوع (۲) موقوف (۳) مقطوع 

پھر حدیث خواہ مرفوع ہو یا موقوف ہو یا مقطوع ہو ان میں سے ہر ایک کی تین قسمیں ہیں۔  

(۱) قولی  (۲) فعلی  (۳) تقریری ۔


اقسام حدیث باعتبار نقل یعنی نقل کے اعتبار سے حدیث کی دوقسمیں ہیں  (۱) متواتر  (۲) غیر متواتر۔ 


پھر راویوں کے تعداد کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) مشہور  (۲) عزیز  (۳) غریب۔


پھر مراتب کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں ہیں۔ (۱) صحیح لذاتہ  (۲) صحیح لغیرہ  (۳) حسن لذاتہ  (۴) حسن لغیرہ۔

(ماخوذ: اصول علم حدیث صفحہ ۵ ، تا ۹)


اور حدیث کے منکر پر حکم شرع یہ ہے کہ اگر کسی نے حدیث کا انکار کیا تو وہ کافر ہے 

میرے آقا اعلٰی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: حدیث متواتر کے انکار پر حکم تکفیر کی جاتی (یعنی حکم کفر لگایا جاتا) ہے خواہ متواتر باللفظ ہو یا متواتر المعنیٰ اور حدیث ٹھہرا کر جو کوئی استخفاف کرے تو یہ مطلقا کفر ہے اگرچہ حدیث احاد بلکہ ضعیف بلکہ فی الواقع اس سے بھی نازل (یعنی کم درجہ) ہو۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۲۸۰)


نوٹ: حدیث ٹھہرا کر انکار کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ قائل یہ مراد لے کہ فلاں بات سرکار کائنات ﷺ نے معاذ اللہ غلط ارشاد فرما دی تو یہ قائل قطعی کافر و مرتد ہے۔


اور رہی بات مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے یا کسی خاص حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے؟ تو جان لیجئے کہ مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے اور کسی خاص حدیث کا انکار کرتا ہے اور وہ حدیث مجروح ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور اگر کسی حدیث صحیح کا انکار کرتا ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ شخص گمراہ ہے۔ اس پر توبہ تجدید ایمان لازم و ضروری ہے۔


جیسا کہ فتاویٰ شارح بخاری میں ہے: حدیث کا مطلقاً انکار کرنے والا کافر ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں حدیث نہیں مانتا۔ لیکن اگر کسی نے کسی خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں مانتا اور وہ حدیث مجروح ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن اگر کسی حدیث صحیح کے بارے میں یہ کہا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ گمراہ ہے اور اگر کسی نے یہ کہا میں پوری کتاب (مشکوٰۃ) میں جو حدیثیں ہیں (یعنی یہ کہا کہ مشکوٰۃ میں جتنی حدیثیں ہیں ان میں سے کسی کو نہیں مانتا) اس کو نہیں مانتا تو وہ بھی ضرور کافر ہے اس پر توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح لازم ہے۔ ( فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ ۵۶۴، ۵۶۵)



اور فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے: اگر کسی شخص نے حدیث کا انکار کیا اگر وہ بیان کردہ حدیث متواتر ہے اور وہ شخص اس کا منکر ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں اس پر علانیہ توبہ استغفار واجب ہے۔ بیوی والا ہو تو نکاح جدید بمہر جدید کرے اور تجدید ایمان بھی کرے اگر مرید ہے تو بیعت بھی کرے اگر وہ حدیث مشہور ہے تو اس کا منکر کافر نہیں بلکہ وہ گمراہ مسلمان ہے۔ (فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۱۰۹)



اور منکرِحدیث کے بارے میں   میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت ، مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں : جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے اور جو نبی  صَلَّی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے وہ قرآن مجید کا منکر اور جو قراٰن مجید کا منکر ہے اللّٰہ واحد قہار کا منکر ہے اور جو اللّٰہ کا منکر ہے صریح مرتد کافِر ہے ۔       

(فتاوٰی رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۳۱۲)

 واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 


کتبہ: غلام محمد صدیقی فیضی

متعلم(درجہ تحقیق سال دوم) دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف سدھارتھ نگر یوپی الہند 


۱۳/ صفر المظفر ۱۴۴۲ ہجری 

مطابق یکم اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز جمعرات







ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney