سوال نمبر 1190
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
نکاح میں چھوہارہ لٹانا کیا ہے سنت ہے یا مستحب ہے یا فضول ہے جواب مرحمت فرمائیں
المستفتی محمد تحسین رضا نوری
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
مستحب ہے ،
کمال قال حضرت العلام علامہ الشاہ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ
(مدارج النبوۃ مترجم جلد دوم صفحہ ۱۰۹)
سرکار اعلٰی حضرت سے سوال ہوا نکاح کے بعد جو چھوہارے لٹانے کا رواج ہے یہ کہیں ثابت ہے یا نہیں ؟
آپ نے ارشاد فرمایا حدیث شریف میں لوٹنے کا حکم ہے اور لٹانے میں بھی کوئی حرج نہیں
اور یہ حدیث دار قطنی و بیھقی و طحاوی سے مروی ہے _
(السنن الکبیر للبیہقی کتاب الصداق باب ماجاء النشار... الخ الحدیث ۱٤٦٨٢ / ۱٤٦٨٣جلد ۷ ص٤٦٩)
(ملفوظات اعلی حضرت حصہ سوم صفحہ ۳٤٧ مکتبۃ المدینہ کراچی)
لیکن دور حاضر میں چھوہارے لٹانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ دور صحابہ میں یا حضور ﷺ کے ظاہری زندگی میں جو چھوہارے یا کھجور لٹائے جاتے تھے تو مسجد میں نکاح ہوتا تھا تو وہاں چٹائی یا کالین بچھے ہوتے تھے جو چیز بھی اس دور میں رہا ہو،،
جس سے مال ضائع نہیں ہوتا تھا لیکن دور حاضر میں کبھی کھیت میں کبھی کہیں نکاح ہوتا ہے اور لوٹنے کا انداز ایسا ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر گر جاتے ہیں چھوہارے پر لوگ اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ مال ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے آسمان کی طرف تیزی سے چھوہارے کو اچھالتے ہیں اس سے بھی مال ضائع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اسی بنا پر لوٹنے یا لٹانے کی اجازت نہیں
ہاں اگر کوئی مسجد میں نکاح کرے یا ایسی جگہ نکاح کرے جہاں مال ضائع ہونے کا اندیشہ نا ہو تو لٹا سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ،،،
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر محمـد مـــعــصوم رضـــا نوریؔ عفی عنہ
۳ ربیع الثانی ٢٤٤١ھ
0 تبصرے