سوال نمبر 1224
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائےکرام ومفتیان عظام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ منتخب کر لیا ہے کہ جماعت میں دائیں طرف ہی کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ امام قرأت کر کے رکوع میں پہونچ جاتا ہے اور وہ لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ہمارے بغل میں نہ کھڑا ہو اور کچھ لوگ بائیں طرف ہی کھڑے ہوں گے یہاں تک کہ امام قرأت کرکے رکوع میں پہونچ جاتا ہے اور وہ لوگ انتظار کر تے رہتے ہیں کہ کوئی ہمارے بغل میں نہ کھڑا ہو پھر رکوع میں شامل ہوتے ہیں اور کچھ لوگ جماعت کھڑی ہوکر امام قرأت شروع کردیتا ہے تب بائیں طرف سے نکل کر دائیں طرف کھڑے ہوتے ہیں اور امام کے سمجھانے کے باوجود نہیں مانتے ہیں اور جہالت کی باتیں کرتے ہیں ایسا کرنے والوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے مفتیان کرام کی بارگاہ میں گزارش ہے کہ کتب فقہ کی روشنی میں جمعہ سے پہلے پہلے حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائے بہت ہی کرم ونوازش ہوگی
السائل... (فقیر قادری) محمد فیضان القادری الرضوی العلیمی بہرائچی
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
مسجد میں کسی جگہ کو اپنے لئے منتخب کرلینا یہ مکروہ تحریمی ہے ۔ ایسا جولوگ کرتے ہیں وہ گنہگار ہیں توبہ کریں ۔اور جو لوگ صرف ثواب کی غرض سے داہنے جانب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کو ہی فوقیت دیتے ہیں اور داہنے جانب ہی کا انتخاب کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں کیونکہ اس طرح کرنا بھی منع ہے حکم شرع یہ ہے کہ صفیں دونوں طرف برابر ہوں ۔
امام کے سمجھانے پر جو لوگ نہیں مانتے وہ لوگ جاہل ہیں ۔ اپنی ضد کی وجہ سے وہ گنہگار ہیں توبہ کریں اور اپنے امام کی باتوں کو مانیں جو شرعا درست ہو ۔ اورکسی جانب کا انتخاب نہ کریں ۔
جیساکہ فقیہ اعظم حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی محمد امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمة و الرضوان تحریرفرماتےھیں: ،، مسجد میں کوئی جگہ اپنے لئے خاص کرلینا کہ وہیں نماز پڑھے یہ مکروہ ہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ، الفصل الثاني، جلداول ،صفحہ ۱۰۸ ، وغیرہ)
(ماخوذ: بہارشریعت جلداول حصہ سوم صفحہ ٦٢٦ المکتبة المدینة دعوت اسلامی)
جیساکہ حدیث شریف میں ہے:
حضرت عبدالرحمن ابن شبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کوّے کی طرح ٹھونگ مارنے اور درندے کی طرح پاؤں بچھانے سے منع فرمایا اور اس سے منع فرمایا کہ مسجد میں کوئ شخص جگہ مقرر کرلے جیسے اونٹ جگہ مقرر کرلیتا ہے ۔
(سنن أبي داود ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ في الرکوع و السجود، الحدیث : ۸۶۲ ، جلد اول ، صفحہ ۳۲۸۔)
ماخوذ: بہارشریعت جلداول حصہ سوم صفحہ ١٥٠ مکتبہ قادری کتاب گھر اسلامیہ مارکیٹ بریلی شریف)
اور اگر اس نیت سے لوگ داہنے جانب کھڑے ہونےکو ترجیح دیتے ہیں کہ داہنے جانب زیادہ ثواب ہے۔
جیساکہ حدیث شریف میں ہے ۔
عن عائشة قالت قال رسول الله علیه وسلم ان الله وملٰٓئکته یصلون علی میامن الصفوف ۔ رواہ ابوداؤد
یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے راویت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’اﷲ (عزوجل) اور اس کے فرشتے صف کے داہنے والوں پر دُرود بھیجتے ہیں ۔‘‘
(’’ سنن أبي داود ‘‘ ، کتاب الصلاۃ، باب من یستحب أن یلي الإمام في الصف ۔۔۔ إلخ، الحدیث : ۶۷۶ ، جلداول ، صفحہ ۲۶۸۔)
تواس حدیث شریف پر بھی عمل کرنا چاہیۓ کہ بائیں جانب بھی بہت ثواب ہے ۔
جیساکہ حدیث شریف میں ہے ۔
طبرانی کبیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے راویت ہے ، کہ حضور اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو مسجد کی بائیں جانب کو اس لیے آباد کرے کہ اُدھر لوگ کم ہیں ، اسے دُونا ثواب ہے۔‘‘
(’’ المعجم الکبیر ‘‘ للطبراني، الحدیث : ۱۱۴۵۹ ، جلد ۱۱ ، صفحہ ۱۵۲۔)
لہذا جو لوگ بھی اس طرح کی حرکت کرتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو وہ نمازی سب کے سب گنہگار ہیں توبہ کریں اور جہاں بھی مسجد میں جگہ ملے وہیں نماز ادا کریں ۔ ان کو چاہئے داہنے جانب جگہ ملے یا بائیں جانب جگہ ملے ۔ ہاں اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ دونوں جانب صفیں برابر ہوں ۔ اگرداہنے جانب ثواب زیادہ ہے تو بائیں جانب بھی کچھ کم نہیں ۔
وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب
کتبه
العبد ابوالفیضان محمد عتیق الله صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام بتھریاکلاں ڈومریا گنج سدھارتھنگر یوپی
١٨ ربیع الغوث ١٤٤٢ھ
٣ دسمبر ٢٠٢٠ء
0 تبصرے