سوال نمبر 1226
السلام علیکم ورحمة ﷲ وبرڪاته
آپکی بہت مہربانی ھوگی اس جملے کی تهوڑی سی وضاحت فرما دیجئے
ﷲ عزوجل آپ ڪو اجر عطاء فرمائے گا
""وکالت بالبیع میں وکیل عاقد ہوتا ہے اور حقوق وکیل کی طرف لوٹتے ہیں۔۔۔اور وکالت بالنکاح میں وکیل معبر ہوتا ہے اور حقوق وکیل کی طرف نہیں لوٹتے۔۔۔""
سائل عبدالجبار خان عطاریؔ عرب شریف
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب:
وکیل باب بیع میں عاقد یعنی ذمہ دار ہوتا ہے اسی لیے حقوق وکیل کی طرف لوٹتا ہے
بر خلاف نکاح کے اس لیے کہ باب نکاح میں وکیل عاقد نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ سفیر محض یعنی پیغام رساں ہوتا ہے اسی لیے حقوق وکیل کی طرف نہیں لوٹتا ہے بلکہ زوجین کی طرف لوٹتا ہے
جیسا کہ صاحب شرح وقایہ تحریر فرماتے ہیں "اعلم ان زوجنی لیس فی الحقیقۃ ایجابا بل ھو توکیل ثم قولہ زوجت ایجاب و قبول فان الواحد یتولی طرفی النکاح بخلاف البیع فانہ اذا قال بعنی ھذا الشئ فقال بعت لا ینعقد البیع الا ان یقول الآخر اشتریت فان الواحد لا یتولی طرفی البیع و ذالک لان حقوق العقد ترجع الی العاقد فی البیع و اما فی النکاح فحقوقۃ ترجع الی الزوج و الزوجۃ لا الی العاقد فان العاقد ان کان غیرھما فھو سفیر محض"
جان لو کہ یہ کہنا میرا نکاح کر دیجئے حقیقت میں ایجاب نہیں ہے بلکہ وکیل بنانا ہے پھر دوسرے کا قول میں نے نکاح منظور کر لیا یہ ایجاب وقبول دونوں ہے اس لیے کہ ایک ہی شخص نکاح کے دونوں طرف کا ذمہ دار ہو سکتا ہے بر خلاف عقد بیع کے اس لیے جب کوئی کہے مھجے یہ بیچ دیں اور دوسرا کہے میں نے بیچ دیا تو بیع منعقد نہ ہوگی مگر یہ کہے میں نے خرید لیا اس لیے ایک ہی شخص بیع کے دونوں طرف کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہے اور یہ حکم اس لیے ہے کہ عقد کے حقوق عاقد کی طرف لوٹتے ہیں اور نکاح میں حقوق شوہر و بیوی کی طرف لوٹتے ہیں نہ کہ عقد کرانے والے کی طرف اس لیے کہ عاقد شوہر اور بیوی کے علاوہ ہو تو وہ سفیر محض یعنی پیغام رساں ہے۔
(شرح وقایہ جلد دوم صفحہ ۵)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
العبد محمد عمران القادری التنویری عفی عنہ
۱۸ ربیع الثانی ۱۴۴۲
۴ دسمبر ۲۰۲۰
0 تبصرے