زمین دینے کی وصیت کی تو کیا حکم ہے؟

 سوال نمبر 1278


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مسئلہ:۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید نے وصیت کی کہ میری وفات کے بعد فلاں زمین فلاں شخص کو دینا اگر زید کی اولاد اس وصیت کو نہ مانے اور پورا نہ کرے تو اس کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

المستفتی:۔ فاران رضا گونڈوی






وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب:

دین اسلام میں وصیت کرنا جائز ہے قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعا لیٰ نے آیت میراث میں وارثین کا حق بیان کرتے ہوئے کئی جگہ ارشاد فرمایا کہ اگر وصیت نہ کی ہو یعنی وصیت ہو تو وصیت ادا کرنے اور دین یعنی قرض نکالنے کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا۔

یونہی نبی کریم ﷺ نےصحابۂ کرام رضوان اللہ تعا لیٰ علیہم اجمعین کو وصیت کی ترغیب دی


چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ مَاتَ عَلَى وَصِيَّةٍ مَاتَ عَلَى سَبِيلٍ وَسُنَّةٍ وَمَاتَ عَلَى تُقًى وَشَهَادَةٍ وَمَاتَ مَغْفُورًا لَهُ.‘‘

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص وصیت کر کے وفات کر گیا وہ راہ (راہ راست) پر اور سنت کے مطابق وفات پایا نیز پرہیزگاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کی مغفرت ہوگی۔ ( سنن ابن ماجہ کتاب: وصیتوں کا بیان ،حدیث نمبر۲۷۰۱)

مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اولادوں کو محتاج بناکر ساری دولت وصیت کر جائے شرعا اس کی اجازت نہیں ہے  البتہ تہائی یعنی مال کے تین حصوں میں سے ایک حصہ کی وصیت کرنا جائز ہے۔


جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:

’’‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّى أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَالشَّطْرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَالثُّلُثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الثُّلُثُ، ‏‏‏‏‏‏وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَتَرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاس‘‘

کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت (بیمار پرسی) کے لئے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کردوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:  نہیں ، میں نے کہا: پھر آدھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:  نہیں ، میں نے کہا: تو ایک تہائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:  ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے ، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جانا، انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ ( سنن ابن ماجہ کتاب: وصیتوں کا بیان ،حدیث نمبر۲۷۰۸)

حدیث شریف کا خلاصہ یہ ہے کہ وصیت تو کرو مگر وارثوں کو نقصان پہنچا کر نہیں کیوں کہ جو شخص اپنے وارثین کی میرات کاٹے گا ﷲ تعالی قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹے گا۔


جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة . رواه ابن ماجه ‘‘

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ (ابن ماجہ؍مشکوٰۃ المصابیح کتاب، وصیتوں کا بیان،حدیث نمبر۳۱۱۰)

لہٰذا وصیت اس اعتبار سے کرنی چاہئے جس سے وارثین کو تکلیف نہ ہو ۔صورت مسئولہ میں وصیت مانی جائے گی اور بیٹوں پر دینا لازم ہوگا ،نہ دینے کی صورت میں گنہگار اور حق العبد میں بروز حشر گرفتار ہونگے ۔ہاں اگر تہائی مال سے زیادہ وصیت کی ہے تو مکمل نہیں دی جا ئے گی بلکہ تہا ئی تک دیا جائے گا اگرچہ کل کی وصیت کی ہو ،البتہ اگر سب وارثین بالغ ہوں، اور کوئی مجنون پاگل نہ ہو تو وہ اپنی رضا سے زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔


جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ’’وصیت ثلث مال سے زیادہ کی جائز نہیں مگر یہ کہ وارث اگر بالغ ہیں اور نابالغ یا مجنون نہیں۔ (عالمگیری ج۶،ص۹۰ وہدایہ؍بحوالہ بہار شریعت ح ۱۹؍ وصیت کا بیان )


واللہ اعلم بالصواب



کتبہ: فقیر تاج محمد قادری واحدی


۱۶/ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲

۲/جنوری ۲۰۲۱







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney