پاک جوتا پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1295


السلام علیکم  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اگر جوتا بالکل پاک اور صاف ہو نیا ہو تو کیا اس کو پہن کر نماز ادا ہو جاۓ گی؟؟ کیا یہ جائز ہے یا ناجائز ھے؟  اور اگر نماز ہو جاۓ گی تو کیا جوتا اتار کر اس کے اوپر پاؤں رکھ کر نماز پڑھنی ہو گی یا پہن کر بھی نماز صحیح ودرست ھے؟

المستفتی محمد شبر مسائل شرعیہ گروپ سے۔۔






وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب:- نماز جوتا پہن کر نہیں پڑھ سکتے ہیں کیونکہ نماز کی حالت میں پاؤں کی ایک انگلی کا لگانا فرض ہے اور دس میں سے اکثر انگلیوں کا لگانا واجبات میں سے ہے۔فرض ترک ہوجانے سے نماز جاتی رہتی ہے سجدۂ سہو سے اس کی تلافی نہیں  ہوسکتی لہٰذا نماز پھر پڑھے۔ اور اگر واجبات میں قصدا ایسا کیا تو نماز ہی نہیں ہوئی۔ اور جوتا پہن کر نماز پڑھے گا تو بالکل یہ ظاہر ہے کہ پاؤں کی انگلی زمین سے نہیں لگے گی۔ جس کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی۔اب چاہے وہ جوتا نیا ہو یا پرانا۔اور مسجد میں جوتا پہن کر جانا بے ادبی بھی ہے۔ 

ردالمحتارمیں ہے: دخول المسجد متنعلا سوء الادب۲؎

مسجد میں جوتاپہن کرداخل ہونا بے ادبی ہے۔


اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ہے: سخت اور تنگ پنجے کا جوتا جو سجدہ میں انگلیوں کاپیٹ زمین پر بچھانے اور اس پر اعتماد کرنے زور دینے سے مانع ہو ایسا جوتا پہن کرنماز پڑھنی صرف کراہت و اساءت درکنار مذہب مشہورہ و مفتی بہ کی رو سے راساً مفسد نماز ہے کہ جب پاؤں کی انگلی پر اعتماد نہ ہوا سجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا نماز نہ ہوئی، امام ابوبکر جصاص و امام کرخی و امام قدوری و امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ وغیرہم اجلہ ائمہ نے اس کی تصریح فرمائی،


درمختارمیں ہے: فیہ (ای فی شرح الملتقی) یفترض وضع اصابع القدم ولو واحدۃ نحو القبلۃ والا لم تجز والناس عنہ غافلون وشرط طھارۃ المکان وان یجد حجم الارض والناس عنہ غافلون۱؎اھ  ملخصاً

اس (شراح الملتقی) میں ہے قدم کی انگلیوں کا زمین پر جانب قبلہ رکھنا فرض ہے خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو ورنہ جائز نہیں اور لوگ اس سے غافل ہیں اور مکان کا پاک ہونا بھی شرط ہے اور حجم زمین کو پانا اور لوگ اس سے بھی غافل ہیں اھ  تلخیصاً۔


اسی میں ہے : منھا(ای من الفرائض) السجود بجبھتہ وقدمیہ ووضع اصبع واحدۃ منھما شرط۱؎۔

ان میں سے (یعنی فرائض میں سے) پیشانی اور قدمین پرسجدہ کرناہے اور ان دونوں پاؤں میں سے ایک انگلی کا لگنا شرط ہے۔

غننہ میں ہے: المراد من وضع القدم وضع اصابعھا قال الزاھ دی ووضع رؤس القدمین حالۃ السجود فرض، وفی مختصر الکرخی سجد ورفع اصابع رجلیہ عن الارض لاتجوز، وکذا فی الخلاصۃ والبزازی وضع القدم بوضع اصابعہ وان وضع اصبعا واحدۃ اووضع ظھرالقدم بلااصابع ان وجع مع ذٰلک احدی قدمیہ صح والافلا، فھم من ھذا ان المراد بوضع الاصابع توجیھھا نھو القبلۃ لیکون الاعتماد علیھا والافھووضع ظھرالقدم وقدجعلہ غیرمعتبر وھذا ممایجب التنبیہ لہ فان اکثرالناس عنہ غافلون۳؎۔


فتح القدیرمیں ہے: اما افتراض وضع القدم فلان السجود قدم مع رفعہما بالتلاعب اشبہ منہ بالتعظیم ولاجلال ویکفیہ وضع اصبع واحدۃ وفی الوجیزوضع القدمین فرض فان رفع احدٰھما دون الاخری جازویکرہ۱؎۔

(حوالہ فتاوی رضویہ شریف ج ۷ ص ۳۶۷ رضا فاؤنڈیشن لاہور)


 بہار شریعت میں ہے: پیشانی کا زمین پر جمنا سجدہ کی حقیقت ہے اور پاؤں  کی ایک انگلی کا پیٹ لگنا شرط۔ تو اگر کسی نے اس طرح سجدہ کیا کہ دونوں پاؤں زمین سے اٹھے رہے، نماز نہ ہوئی بلکہ اگر صرف انگلی کی نوک زمین سے لگی، جب بھی نہ ہوئی اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں ۔ (حوالہ بہار شریعت ج ۱ ح ۳ ص ۵۱۳ مکتبہ المدینہ کراچی۔)


اگر جوتا ایسا ہے کہ اس پر نماز پڑھیں تو انگلیاں موڑنے سے مڑ جاتی اور دبانے سے دب جاتی ہوں  تو ایسے جوتے پر نماز ہو جائے گی ورنہ نماز نہیں ہوگی۔

اگر سائل نماز سے نماز جنازہ کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں تو چونکہ نماز جنازہ میں رکوع و سجود نہیں ہے۔۔لہذا جوتا پاک و صاف ہے تو جوتا میں نماز جنازہ ہوجائے گی۔


فتاوی رضویہ شریف میں ہے: فی البدائع لوصلی علٰی مکعب اعلاہ طاھر وباطنہ نجس عند محمد یجوز لانہ صلی فی موضع طاہر کثوب طاھر تحتہ ثوب نجس اھ وظاہرہ ترجیح قول محمد وھو الاشبہ۔ *( ج ۹ ص ۱۸۸ رضا فائونڈیشن لاہور)

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب


از قلم فقیر محمد اشفاق عطاری

خادم دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال،،

 ۱۴ جمادی الاول ۱۴۴۲ ہجری،، ۳۰ دسمبر ۲۰۲۰ عیسوی بروز بدھ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney