اگرامام حرامی کی اولاد کہے تو ان کی اقتداء کرنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1300


السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مسئلہ:۔ کیا فر ما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید ایک مسجد کا امام ہے اور عالم بھی ہے اور عمر ایک طالب علم ہے انہوں نے اصلاح کے طور پر ایک مسٔلہ بتایا جو امام کے اندر کمی پائی جاتی تھی تو امام صاحب نے کہا بلاؤ اس حرامی کی اولاد کو اس طرح گالی بکنا کیسا ہے؟اور ان کی اقتداء کا کیا حکم ہے؟ الحمداللہ عمر ثابت النسب ہے؟مدلل جواب سے نوازیں

المستفتی:۔ غلام حیدر ڈومرمنی کشن گنج (بہار)




وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب  بعون الملک الوہاب:

امام کے اندر کمی پائی جاتی تھی تو عمر کا کہنا درست ہوا مگر عمر کو چاہئے تھا کہ براہ راست امام سے کہتا تاکہ امام اپنی غلطیوں کو دور کرلے دوسرے سے کہنے کی حاجت کیا تھی ۔اور اگر امام میں کمی نہیں تھی بلکہ عمر نے بغض و حسد کی بنا پر تہمت لگایا تو عمرپر لازم ہے کہ امام سے معافی مانگے ۔

عمر کی غلطی رہی ہو یا نہ رہی ہو امام صاحب کا حرامی کی اولاد کہنا شرعا جائز نہیں ہے۔


 ارشاد ربانی ہے: ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ  وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ‘‘

 بیشک وہ جو عیب لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

(سورہ نور ۲۳)

چونکہ حرامی کی اولاد کہنا ایک قسم کی گالی ہے جس سے مسلمان کو تکلیف پہونچتی ہے اور کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی ایذا دینا حرام ہے اور گالی دینا سخت حرام ہے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: من اذٰی مسلما فقد اذانی ومن اذانی فقد اذیﷲ‘‘ جس نے کسی مسلمان کو بلا وجہ شرعی ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے ﷲ کو ایذا دی۔ 

(کنز العمال ۱۶؍ ۱۰)


لہٰذا امام صاحب پر لازم ہے کہ عمر سے معافی مانگیں اور سچے دل سے توبہ کریں اللہ غفور الرحیم ہے ۔چونکہ گالی دینا فسق ہے مگر ایک بار دینے سے کو ئی فاسق معلن نہیں ہوتا لہٰذا امام صاحب کی اقتداء میں نماز درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب


کتبہ: فقیر تاج محمد قادری واحدی







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney