بلا اضافت طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

 سوال نمبر 1321


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بعدہ خدمت عالیہ میں عرض ہے کہ زید اپنی بیوی سے موبائل کے ذریعے بات کر رہا تھا بات تنازع میں تبدیل ہوگئی اور بیوی نے شوہر کی ماں کو گالی دی زید نے جب گالی سنی تو سخت ناراض ہوا اور غصے ہی کی حالت میں طلاق طلاق طلاق تین بار کہا نہ ہی اپنی بیوی کا نام لیا اور نہ ہی تجھ کو یا تم کو وغیرہ کہا جب زید سے پوچھا گیا کہ تم نے جب یہ تین مرتبہ کہا تو کیا ارادہ کیا تھا زید نے کہا میں نے اس سے کوئی ارادہ نہیں کیا تھا بس غصہ آیا کہہ دیا 

دلائل کی روشنی میں مسئلہ حل فرمائیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟

المستفتی: مولانا ارشاد احمد بہرائچ شریف







وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورت مسئولہ میں اگر زید کی بیوی کی طرف سے فون پر طلاق کا مطالبہ رہا ہوگا تو یہاں بغیر نیت اور نسبت و اضافت کے بھی طلاق واقع ہوجائے گی ، اور اگر زید کی بیوی کی طرف سے طلاق کا مطالبہ نہ رہا ہو تو طلاق واقع نہ ہوگی ۔ کیونکہ بغیر مطالبۂ طلاق و مذاکرۂ طلاق ، طلاق واقع ہونے کے لئے اضافت یا نیت کا ہونا ضروری ہے!

 صرف طلاق طلاق طلاق کہنے سے طلاق واقع نہ ہوگی ،

 اور جب کہ زید خود کہہ رہا ہے کہ میں نے طلاق کی نیت بھی نہیں کی تھی اور نہ ہی اضافت کیا تھا تو طلاق واقع نہ ہوئی۔



جیساکہ بہار شریعت میں ہے:

" طلاق میں اضافت ضرور ہونی چاہئے بغیر اضافت طلاق واقع نہ ہوگی, خواہ حاضر کے صیغہ سے بیان کرے مثلا تجھے طلاق ہے یا اشارہ کے ساتھ مثلا اسے یا اسے یا نام لے کر کہے کہ فلانی کو طلاق ہے یا اس کے جسم و بدن یا روح کی طرف نسبت کرے یا اس کے کسی ایسے عضو کی طرف نسبت کرے جو کل کے قائم مقام تصور کیا جاتا ہو مثلا گردن یا سر یا شرمگاہ۔ (بہار شریعت جلد دوم حصہ ہشتم صفحہ ۱۲۰، دعوت اسلامی)


اور اسی طرح کے ایک سوال کا جواب فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ:

شخص مذکور کا قول طلاق طلاق اضافت سے خالی ہے یعنی لفظ طلاق کی نسبت اس کے بیوی کی طرف نہیں ہے اس صورت میں اس سے قسم لی جائے اگر وہ حلف کرے کہ ان الفاظ سے اپنی زوجہ مراد نہ تھی تو حکم ہوگا کہ اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہوئی, پھر واقع میں نیت کی تھی اور جھوٹ قسم کھالی تو وبال اس پر ہے, اور اگر اس کی نیت میں بھی بیوی کی طرف طلاق کی اضافت ہو تو حکم ہوگا کہ اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے: 

"فقال بسہ طلاق ان قال عنیت امراتی یقع وان لم یقل شیئا لا یقع کذا فی الخلاصۃ اھ" 

(فتاویٰ ہندیہ جلد اول صفحہ ۳۸۲)

(ماخوذ: فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد اول صفحہ ۵۹۰)


مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوا کہ بغیر اضافت کے طلاق واقع نہیں ہوگی جبکہ بیوی کی جانب سے مطالبۂ طلاق نہ رہا ہو!

 زید کی بیوی کو چاہئے کہ شوہر سے معافی مانگے اور اس کی ماں کو گالی دینے کے گناہ سے توبہ و استغفار کرے ! نیز آئندہ گالی نہ  بکنے کا عہد کرے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


کتبہ: فقیر غلام محمد صدیقی فیضی


۲۷/ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ ہجری

مطابق ۱۳/ جنوری ۲۰۲۰ عیسوی

بروز بدھ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney