یا جنید یا جنید کے واقعہ کی مکمل صراحت

 سوال نمبر 1322


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ 

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل واقعہ کے بارے میں کہ:

 ایک شخص دریا پار کررہا تھا جب وہ یا جنید یا جنید کہتا تو نہیں ڈوبتا اور جب اللہ اللہ کہتا تو ڈوبنے لگتا تھا الخ: دریافت طلب امر یہ ہے کہ  مذکورہ واقعہ شرعا درست ہے یا نہیں؟ 

جواب عنایت فرمائیں۔ 

المستفتی ذیشان، الہ باد ۔ 




 


وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب و ھو الھادی الی الصواب: 

یا جنید یا جنید کہہ کر دریا پار کرنے کا واقعہ بیشک مستند و معتبر ہے۔ 


جیساکہ حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

یا جنید یا جنید کہہ کر دریا پار کرنے کا واقعہ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رضی عنہ ربہ القوی کا بیان فرمانا اور امام الفقہاء حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کا اسے ملفوظ میں تحریر فرمانا واقعہ مذکورہ کے مستند ہونے کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ لہذا زید کا اس کو بیان کرنا درست ہے۔ اور بکر کا اس واقعہ کو بے بنیاد و بے اصل کہنا اور اسے گمراہ کن قرار دینا غلط ہے۔


اگر کوئی یا جنید یا جنید کہے تو نہ ڈوبے اور اللہ اللہ کہے تو ڈوب جائے یہ کیسے ہوسکتا ہے تو ایسا کہنے والے کو صوبہ مہاراشٹر میں پونہ بھیج دیا جائے کہ اسی شہر کے قریب حضرت قمر علی درویش رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک ہے۔ وہاں ایک بڑا گول پتھر ہے جس کا وزن نوے (۹۰) کلو بتایا جاتا ہے وہ "قمر علی درویش" کہنے پر انگلیوں کے معمولی سہارا دینے سے اوپر اٹھتا ہے اور اللہ کہنے سے نہیں اٹھتا۔ میں بذات خود اس کا تجربہ کر چکا ہوں، اس میں کیا راز ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

( ماخوذ از فتاویٰ فقیہ ملت، جلد۱، ص۱ )


نوٹ: بطورِ کرامت اس واقعے کا ذکر ہے اور کرامت کا ظہور اولیائے کرام سے متواتر ہے۔ پھر اس کے بے بنیاد ہونے کا دعویٰ محض باطل ہے، معترض پر لازم ہے کہ وہ کرامت کے صدور کا قرآن و حدیث سے رد کرے! یا رد پر دلیل دے ورنہ بلا وجہ زبان کھول کر عقیدہ و ایمان کو غارت نہ کرے!

۔والله تعالیٰ اعلم بالصواب۔ 



کتبہ: محمد چاند رضا اسمعیلی، دلانگی،

 متعلم دارالعلوم غوث اعظم مسکیڈیہ، جھارکھنڈ۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney