جلسے میں بیٹھ کر "سبحان اللہ" کہنا کیسا ہے؟

 سوال نمبر 1335


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جلسے میں بیٹھ کر سبحان اللہ کہنا کیسا ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں کیا دنیا میں اس کا صلہ ملتا ہے؟ 

المستفتی :- عبداللہ 





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب:- جلسے میں بیٹھ کر سبحان اللہ، ماشااللہ، الحمد اللہ، یا اللہ اکبر کہنا جائز ہے اور کہنے والا اجر کا مستحق ہے۔


حدیث شریف میں ’’سُنَنِ ابن ِماجہ‘‘ کی روایت میں ہے:

 (ایک بار) مدینے کے تا جدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کہیں تشریف لے جارہے تھے حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو مُلاحَظہ فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں ۔ اِستِفسار فرمایا: کیا کررہے ہو؟ عرض کی: درخت لگا رہا ہوں۔ فرمایا: میں بہترین درخت لگا نے کا طریقہ بتادوں!  سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھنے سے ہر کَلِمَہ کے عِوَض (یعنی بدلے)  جنَّت میں ایک دَرخت لگ جاتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الادب،باب فضل التسبیح،الحدیث ۳۸۰۷،ج۴،ص۲۵۲)


ہاں اگر قاری قرآن قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو وہ جلسے میں شرکت کرنے والے تمام حضرات پر لازم یعنی واجب ہے کہ وہ قرآن کو سنیں۔ دوران تلاوت سبحان اللہ ،ماشااللہ، نہیں کہہ سکتے ہیں۔

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰ (پ۹، الاعراف: ۲۰۴)

ترجمہ کنزالایمان: جب قرآن پڑھا جائے تو اسے سُنو اور چپ رہو، اس امید پر کہ رحم کئے جاؤ۔


لہذا اِس حدیثِ پاک میں چار کَلِمے ارشاد فرمائے گئے ہیں : {۱} سُبْحٰنَ اللّٰہِ {۲}اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ {۳} لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ {۴}  اَللّٰہُ اَکْبَرُ یہ چاروں کَلِمَات پڑھیں تو جنّت میں چار درخت لگائے جائیں اور کم پڑھیں تو کم۔ مَثَلاً اگر کوئی صرف سُبْحٰنَ اللّٰہ کہا تو اسے ایک درخت، جتنی بار کہے اتنے جنت میں درخت لگایا جائے گا۔ ان کلمات کو پڑھنے کیلئے زَبان چلاتے جائیے اور جنت میں خوب خوب درخت لگواتے جایئے یونہی اگر کوئی جلسے میں بیٹھ کر اللہ کی کبریائی بیان کرتا ہے ، سبحان اللہ، الحمد اللہ، ماشاء اللہ، کہتا ہے تو اس کا بہتر اجر اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل سے دینے والا ہے اس کی نیت کے اعتبار سے خلوص کے اعتبار سے دیا جائے گا۔ 

پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَالِکُلِّ امْرِ ئٍ مَّانَوٰی. یعنی اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اُس نے نیت کی۔ اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہ یعنی مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے۔ 


از قلم: فقیر محمد اشفاق عطاری

خادم دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال،، 

۲ جمادی الثانی ۱۴۴۲ ہجری ،، ۱۶ جنوری ۲۰۲۱ عیسوی بروز ہفتہ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney