سوال نمبر 1384
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ انبیاء کرام کا عرس منانا کیسا ہے؟ جیسے کہ پوسٹر اس طرح شائع کرنا عرس حضرت شیث علیہ السلام، تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں کیا فتاوی رضویہ میں ایسی کوئی عبارت ہے کہ اعلی حضرت نے انبیائے کرام کے عرس منانے کو ناجائز لکھا ہے؟
سائل: غلام یزادانی گونڈوی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب:
عرس منانا بلاشبہ جائز و درست ہے چاہے انبیائے کرام کا ہو یا اولیائے عظام کا۔
تاریخ وصال کے موقع پر اھل اللہ کی یاد منانے کو عرس کہتے ہیں اور انبیائے کرام کا عرس منانا یعنی تاریخ وصال پر ان کا ذکر کرنا ان کی یاد منانا قرآن مجید سے ثابت ہے
جیساکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: "وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠" (سورہ مریم آیت ۱۵)
اور سلامتی ہے اس پرجس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ (کنزالایمان)
لہذا اشتہارات میں کسی نبی کے جانب منسوب بزم کو عرس لکھنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
جیسا کہ ایک واقعہ حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ نے سبع سنابل شریف میں ذکر کیا ہے: جس میں ماہ ربیع الاول میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ کی جانب منسوب ہونے والے بزم کو عرس ہی تحریر فرمایا ہے
اور حضوراعلی حضرت نے سبع سنابل شریف میں مذکور واقعہ کو خود فتاویٰ رضویہ شریف میں نقل کیا ہے تحریر فرماتے ہیں:
"حضرت میر سید عبد الواحد قدس سرہ، الماجد سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں:
"مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری راقدس ﷲ تعالٰی روحہ، درماہ ربیع الاول بجہت عرس رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ازدہ جا استدعا آمدہ کہ بعد از نماز پیشین حاضر شوند ہر دہ استدعا را قبول کردند۔ حاضران پرسیدند اے مخدوم ہر دہ استدعا را قبول فرمود و ہر جا بعد از نماز پیشین حاضر باید شد چگونہ میسر خواہد آمد۔ فرمود کِشن کہ کافر بود چند صد جا حاضر می شد، اگر ابوالفتح دہ جا حاضر شود چہ عجب بعد از نماز پیشین از ہردہ جا چوڈول رسید مخدوم ہر بارے از حجرہ بیرون می آمد بر چوڈول سوار میشد و می رفت ونیز ودر حجرہ حاضر می ماند۔ خرد مندا تو ایں رابر تمثیل حمل مکن یعنی مپندار کہ تمثیلہائے شیخ بچندیں جاہا حاضر شدہ است۔ لا وﷲ بلکہ عین ذات شیخ بہر جا حاضر شدہ بود، ایں خود دریک شہر و یک مقام واقع شد۔ و ذات ایں موحد خود در اقصائے عالم حاضر است خواہ علویات خواہ سفلیات "
ماہ ربیع الاول میں رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے عرس پاک کی وجہ سے مخدوم شیخ ابوالفتح جونپوری قدس سرہ، کی دس جگہ سے دعوت آئی کہ بعد نماز ظہر تشریف لائیں۔ حضرت نے دسوں دعوتیں قبول کیں۔ حاضرین نے پوچھا: حضور نے دسوں دعوتیں قبول فرمائی ہیں اور ہر جگہ نماز ظہر کے بعد پہنچنا ہے یہ کیسے میسر ہوگا؟ فرمایا: کِشن جو کافر تھا سیکڑوں جگہ حاضر ہوتا تھا اگر ابو الفتح دس جگہ حاضر ہو تو کیا عجب ہے؟ نماز ظہر کے بعد دسوں جگہ سے پالکی پہنچی، مخدوم ہر بار حجرہ سے آتے، سوار ہوجاتے، تشریف لے جاتے اور حجرہ میں بھی موجود رہتے _ اے عقل مند! اسے تمثیل پر محمول نہ کرنا، یعنی یہ نہ سمجھنا کہ شیخ کی مثالیں اتنی جگہوں میں حاضر ہوئیں ۔ یہ تو ایک شہر اور ایک مقام میں واقع ہوا خود اس موحد کی ذات عالم کے سروں میں موجود ہے خواہ علویات ہوں خواہ سفلیات۔
(سبع سنابل سنبلۂ ششم درحقائق وحدت الخ مکتبہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص ۱۷۰)
(فتاویٰ رضویہ جلد نہم صفحہ ١٥٢مطبوعہ دعوت اسلامی)
اور فتاوی رضویہ میں کوئی ایسی عبارت جو حضور اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی جس میں انبیاء کے عرس کو ناجائز کہا ہو کبھی نظر سے نہ گزری البتہ ایک بدمذہب کی عبارت عرس کے عدم جواز پر سائل نے سوال کے ساتھ بھیجا ہے جو فتاوی رضویہ جلد ٢٩ میں ہے اور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ نے اس کا رد کیا ہے جو عبارت عرس کے عدم جواز پر ہے وہ بدمذہب کی عبارت ہے اور اس کے بعد میں اس کے رد پر جو عبارت ہے وہ حضور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی ہے۔
الانتباہ:- عوام عرس سے بزرگان دین کی سالانہ فاتحہ خوانی وغیرہ ہی سمجھتی ہے اور اکثر عرس کا استعمال بزرگان دین ہی کے سالانہ فاتحہ خوانی پر ہی مستعمل ہے اس لئے انبیائے کرام کی جانب منسوب مجلس و محافل کو دیگر ناموں سے یاد کرنا ہی بہتر ہے مثلاً ذکر یا محفل وغیرہ اگرچہ عرس کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں لیکن عرفا قباحت ہے اس لئے انبیائے کرام کی طرف منسوب مجلس کو عرس کہنے سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد ابراہیم خان امجدی قادری رضوی بلرامپوری
خطیب وامام غوثیہ مسجد بھیونڈی مہاراشٹر
0 تبصرے