آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

شوہر ثانی کے حمل سے پیدہ شدہ بچے کی پرورش کس کے ذمہ ہے؟

 سوال نمبر 1383


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ:

(١) کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق مغلظہ دی اور عورت  نے عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے حلالہ کے لئے نکاح کیا اس نے وطی کی اور عورت کو حمل ٹھہر گیا اور ایک بچہ پیدا ہوا اب شوہر ثانی نے طلاق مغلظہ دے دی اور عورت نے عدت گزارنے کے بعد پھر شوہر اول سے نکاح کیا تو اب جو شوہر ثانی کے حمل سے بچہ پیدا ہوا تو اس کی پرورش کس کے ذمہ ہے؟

(٢) اور اس بچے کو اپنے پاس شوہر اول رکھے گا یا  شوہر ثانی؟

(٣) اور وہ بچہ ترکہ پائے گا یا نہیں اگر پائے گا تو کس کے مال سے پائے گا؟

مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

سائل: الفقیر شمس الدین احمد رضوی خلیلی امروہوی







وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبرکاته

الجواب بعون الملک الوہاب ھوالھادی الی الصواب:

 فقہ حنفی کے مطابق لڑکا ماں کی پرورش میں رہے گا یہاں تک کہ وہ پرورش سے مستغنی ہو جائے، خود کھا پی سکے، کپڑے وغیرہ پہن سکے اور استنجاء وغیرہ کر سکے اور بچہ تقریباً سات سال کی عمر میں یہ باتیں سیکھ جاتا ہے، اس لیے سات سال کی عمر تک بچہ ماں کی پرورش میں رہے گا اور ایک قول کے مطابق بچہ نو سال تک ماں کی پرورش میں رہے گا۔

لیکن صورت مستفسرہ میں عورت نے شوہر اول سے نکاح کرلیا تو شوہر اول کی رضا سے ماں بچے کی پرورش کرسکتی ہے اور اگر شوہر اول اجازت نہ دے تو ماں کو جبرا پرورش کا حکم نہ دیا جائے گا بلکہ لڑکا سات سال کی عمر تک سوتیلی خالہ کے پاس رہے گا اگر وہ نہ مانے تو پھوپھی کے پاس اگر وہ بھی نہ مانے تو جبرا خالہ کے پاس رکھا جائے گا 


جیسا کہ سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ در مختار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: 

جب کی نابالغ کی ماں نے ایک اجنبی سے نکاح کرلیا ،اب اسے نابالغ کے رکھنے کا اختیار نہ رہا ایک سات برس کی عمر تک سوتیلی خالہ کے پاس رہےگا اگر وہ نہ مانے گی تو پھوپھی کے پاس رکھا جائے گا اور اگر وہ بھی انکار کرے گی تو جبرا خالہ کے پاس رہے گا یہ سب اس صورت میں ہے کہ خالہ اور پھوپھی دونوں میں کوئی مانع حضانت نہ ہو ورنہ اگر ایک میں مانع حضانت ہو تو دوسرے کے پاس رہےگا سات برس کے عمر کے بعد جوان ہونے تک شوہر ثانی کے پاس رہےگا۔


فی الدر المختار: "الحضانۃ للام الا ان تکون فاجرۃ او متزوجۃ بغیر محرم الصغیر ،الخ"

درمختار میں ہے: بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے مگر یہ کہ وہ فاجرہ ہو یا بچے کے غیر محرم سے نکاح کرلے 

(فتاوی رضویہ شریف ،ج ١٣،ص ٣٨٥،دعوت اسلامی)

 

جب بچہ بالغ ہوجائے اور عقلمند اور سمجھدار بھی ہو تو اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتا ہے اب وہ اپنے نفع اور نقصان کا خود ذمہ دار ہے، لیکن اگر سرپرست یہ دیکھے کہ اس کو با اختیار کرکے چھوڑ دینے سے اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا تو اس کو اپنے ساتھ بھی رکھ سکتا ہے۔ اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد والد یا دادا کے پاس رہے گی، ہاں جب وہ ایسی عمر میں پہنچ جائے کہ اب اس کے بارے میں کسی قسم کا خوف و اندیشہ نہ ہو تو اس کو بھی اختیار ہوگا کہ وہ جس کے پاس رہنا چاہے رہ سکتی ہے

    (ردالمحتار ج ۲، ص ٦٩٦)


اور سیدی سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ در مختار شرح تنویر الابصار کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:

"الحضانۃ تثبت للام، ثم ام الام، ثم ام الاب وان علت، ثم الاخت لاب وام، ثم لام، ثم لاب، ثم بنت الاخت لابوین، ثم لام، ثم الخالات، ثم العمات، ثم خالۃ الام، ثم خالۃ الاب، ثم عمات الامھات والاٰباء، بھذا الترتیب ثم العصبات بترتیب الارث"

پرورش کا حق ماں کو ہے پھر نانی پھر دادی کو اگرچہ اوپر والی ہوں، پھر حقیقی بہن کو پھر ماں کی طرف سے سگی بہن کو پھر باپ کی طرف سے سگی بہن کو پھر حقیقی بہن کی بیٹی کو پھر ماں کی طرف سے بہن کی بیٹی کو پھر خالات کو پھر پھوپھیوں کو پھر ماں کی خالہ پھر باپ کی خالہ کو پھر ماں اور باپ کی پھوپھیوں کو، اسی ترتیب سے پھر، عصبہ مردوں کو وراثت کی ترتیب پر


انہیں میں ہے:

"ولاتقدر الحاضنۃ علی ابطال حق الصغیر وان لم یوجد غیرھا اجبرت بلاخلاف وتستحق اجرۃ الحضانۃ وھی غیراجرۃ ارضاعہ ونفقتہ بحر عن السراجیۃ اھ ملخصین" 

پرورش کرنے والی حقِ صغیر کو باطل نہیں کرسکتی، اگر ماں کے علاوہ کوئی پرورش کرنے والی نہ ہو تو ماں کو بچے کی پرورش پر مجبور کیا جائے گا، اس میں اختلاف نہیں، وہ البتہ پرورش کی اجرت کی مستحق ہوگی جو کہ دودھ پلانے کی اجرت اور نفقہ ولد کے علاوہ ہوگی بحر نے اسے سراجیہ سے نقل کیا ہے اھ ملخصا

(فتاوی رضویہ شریف ،ج ١٣،ص ٣٩٨ ،دعوت اسلامی)


اور پرورش ونفقہ کے متعلق ارشاد باری تعالی بھی ہے:

"وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ"

اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور۔ (البقرہ،آیت ٢٣٣،کنزالایمان)


مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوگیا کہ بچے کی پرورش شوہر اول کی اجازت سے ماں کرے گی اور اگر شوہر اول اجازت نہ دے تو خالہ کے پاس وہ نہ مانے تو پھوپھی کے پاس وہ نہ مانے تو جبرا خالہ کے پاس رکھا جائے گا  لیکن پرورش کا پورا خرچہ شوہر ثانی اٹھائے گا اور جب بچہ سات سال کا ہوجائے گا تو اسے شوہر ثانی کے حوالے کردیا جائے گا اور بچہ شوہر ثانی کے مال سے ترکہ پائے گا کیوں کہ وہ اسی کی اولاد ہے۔

والله تعالی اعلم بالصواب


کتبه: محمد فرقان برکاتی امجدی

١٥/جادی الآخر،٣١/جنوری،٢٠٢١




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney