موبائل میں غلطی سے ریچارج چلا آیا تو کیا حکم ہے؟

سوال نمبر 1560

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کے نمبر پر غلطی سے (بیلنس)  کسی کا آ جائے اور پتہ بھی نہیں کہ کس کا ہے اب اس کو واپس بھی نہیں کر سکتے تو خود استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں  ؟ رہنمائی فرمائیں

المستفتی۔ افضال عطاری  پاکستان

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

 الجواب بعون الملک الوھاب 

غلطی سے آئے ہوئے بیلنس کا حکم یہ ہے کہ اگر دوکان دار یا گراہک آپ کے موبائل پر کال کرکے کہے کہ بھائی صاحب غلطی سے آپ کے موبائل میں ہمارا بیلنس چلا گیا ہے تو آپ جلد از جلد غلطی سے آئے ہوئے بیلنس حق دار کو لوٹا دیں یہی شریعت اسلامی کا حکم ہے ارشاد باری تعالٰی ہے تودوا الا مانات الی اھلھاامانتیں انکے مالکوں کے سپرد کر دو

    اور اگر معلوم نہ ہو سکے کہ یہ بیلنس کہاں سے آیا، اور اس بیلنس کا مالک و حق دار کون ہے؟ تو کچھ دنوں تک حق دار کا پتہ لگائیں،اگر بیلنس کے مالک اور حق دار کا پتہ نہ چل سکے تو بیلنس کی قیمت غریبوں میں صدقہ کر دیں کہ اس وقت اس بیلنس کی حیثیت "لقطہ" کی ہے اور لقطہ کا حکم یہی ہے کہ مالک کا پتہ نہ چلنے کی صورت میں اسے غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔ اور اگر جس کے پاس بیلنس آیا ہے  وہ خود غریب اور صدقہ و خیرات کا مستحق ہے تو اس بیلنس کو اپنے لئے رکھ لے،

اس کی قیمت صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں (موبائل فون کے ضروری مسائل صفحہ ١٤٦)

لہٰذا غلطی سے آئے ہوئے بیلنس حق دار کو لوٹا دیں اگر بیلنس کے حق دار کا پتہ نہ چل سکے تو بیلنس کی قیمت غریبوں میں بانٹ دیں اور اگر خود غریب اور صدقہ و خیرات کا مستحق ہے تو اس بیلنس کو اپنے لئے رکھ لے واللہ تعالی اعلم بالصواب

           کتبہ 

محمد مدثر جاوید رضوی 

مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج 

ضلع۔ کشن گنج بہار



فتاوی مسائل شرعیہ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney