سوال نمبر 1615
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مرحوم منہاج الدین وفات کے وقت ایک بیوی،دو بیٹے،ایک والدہ،ایک شادی شدہ بھائی اور تین شادی شدہ بہنیں چھوڑ گئے ہیں، وراثت کیسے تقسیم ہوگی،برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
المستفتی عبداللہ
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:
جب کسی کا انتقال ہوجائے تو پہلے تین چیزیں اس کے مال و اسباب سے پوری کی جائیں گی، سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا خرچ پورا کیا جائے گا۔عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کردیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، البتہ بیوی کا انتقال ہوا اور شوہر زندہ ہے تو اس کی تجہیز و تکفین(کفن دفن) کا خرچ اس کے مال سے نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر پر لازم ہوگا، دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اُس کے مال سے کی جائے گی، تیسرے نمبر پر تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
اور پوچھی گئی صورت میں مرحوم منہاج الدین کا مکمل ترکہ اڑتالیس(48) حصوں پر تقسیم ہوگا اُس میں سے مرحوم کی بیوہ کو چھ حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:12/4)
ترجمہ کنز الایمان:- پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔
اور اڑتالیس(48) حصوں میں سے والدہ کو آٹھ حصے ملیں گے کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدہ کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے: وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ۔(النساء:11/4)
ترجمہ کنز الایمان:- اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو۔
اور بقیہ چونتیس(34) حصے بطورِ عصبہ مرحوم کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو(17۔17) حصے ملیں گے۔کیونکہ اصحابِ فرائض کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ اُس مرد کا ہوتا ہے جو بہ نسبت دیگر اقارب کے میت سے قریب تر ہے۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ»۔(صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث الولد من ابیہ وامہ،997/2)
یعنی،فرائض ذوی الفروض کو دو،اور جو بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے۔
اس حدیث شریف کے تحت ملّا علی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں:قال النووی: قد اجمعوا علی ان ما بقی بعد الفرائض فھو للعصبات یقدم الاقرب فالاقرب۔
(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفرائض والوصایا،الفصل الاوّل،209/6)
یعنی،امام نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ فقہاء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ جو اصحابِ فرائض کے بعد باقی بچے وہ عصبات کے لئے ہے، جو سب سے زیادہ قریبی ہے اس کو مقدم کیا جائے گا پھر اس کے بعد والا۔
اور مرحوم کے بھائی بہن وراثت سے محروم رہیں گے کیونکہ میت کے بیٹے کی موجودگی میں بھائی بہن محروم ہوجاتے ہیں۔چنانچہ علّامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: یسقط الاخوۃ والاخوات بالابن وابن الابن وان سفل وبالاب بالاتفاق۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الفرائض،الباب الثانی فی ذوی الفروض،450/6)
یعنی،بھائی بہن بیٹے یا پوتے (نیچے تک) اور باپ کے ہوتے ہوئے بالاتفاق محروم رہتے ہیں۔
اور مفتی محمد وقار الدین حنفی متوفی
1413ھ لکھتے ہیں:حقیقی بھائی بہن ہوں یا باپ شریک سب کے سب بیٹے یا پوتے(نیچے تک) اور باپ کے ہوتے ہوئے بالاتفاق محروم رہتے ہیں۔ (بہارِ شریعت،اصحابِ فرائض کا بیان،1126/3/20)
حاصل کلام یہ ہے کہ منہاج الدین کے ورثاء اگر واقعی وہی ہیں جو سوال میں مذکور ہیں تو وراثت پر مقدّم اُمور کے بعد مرحوم کا مکمل ترکہ اڑتالیس(48) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو چھ حصے ملیں گے،جبکہ والدہ کو آٹھ حصے ملیں گے اور بقیہ چونتیس(34) حصے مرحوم کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک کو (17۔17) حصے ملیں گے، اور مرحوم کے بھائی بہن وراثت سے محروم رہیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
متخصص فی الفقہ الاسلامی
پاکستان،کراچی
الجواب صحیح:محمد ابراہیم خان امجدی
29،ذو القعدہ1442ھ۔9جولائی2021ء
0 تبصرے