آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

دوران گفتگو موبائل پر کہا ایک طلاق دوطلاق تو کیا حکم ہے؟ ‏


سوال نمبر 1662

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


مسئلہ:- کیا فرماتے ہیں علمائے کرام زید اپنی بیوی ہندہ سے فون پر بات کر رہا تھا دوران گفتگو اس نے اپنی بیوی سے کہا سن یہ تیسری ہے تو بیوی نے کہا میں  ایک بھی نہیں سنی پھر سے کہو (شاید کال ریکارڈ کے لئے پھر سے کہلوانا چاہتی تھی)  توشوہر نےکہا ایک طلاق ایک، دو طلاق دو، پھر کہا تین جا تیرا ہوگیا، مگر تیسری بار اُس نے طلاق کا نام نہ لیا تو کیا زید کی بیوی پر طلاق واقع ہوگئی یا نہیں، اگر ہوئی تو کونسی ؟ساتھ ہی وائس ریکاڑڈ بھیجتا ہوں سن کر جواب بحوالہ تحریر فرمائیں؟ 

المستفتی:۔انوار احمد قادری



وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

 الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب

صورتِ مسئولہ میں ہندہ پر طلاق مغلّظہ واقع ہوگئی ہے، اب وہ بغیر حلالہ زید کیلئے حلال نہیں ہوسکتی، اور شوہر بیک وقت تین طلاق دینے کے سبب گنہگار بھی ہوا ہے، لہٰذا وہ توبہ کرے۔

مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ بیوی کو وقوع طلاق کیلئے اضافت ضروری ہے، خواہ وہ لفظوں میں ہو یا نیت میں ہو۔ چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ( متوفی۱۳۴۰؁ھ ) تحریر فرما تے ہیں:

ان الاضافۃ لا بد منھا اما فی اللفظ و اما فی النیۃ ، نعم قد توجد الاضافۃ فی اللفظ فلا یحتاج فی الحکم الی النیۃ وقد لا توجد فی اللفظ فیحتاج الی ظھور النیۃ۔(فتاوی رضویہ۱۲؍۳۴۴) 

لہٰذا معلوم ہوا کہ وقوع طلاق کے لئے اضافت ضروری ہے، خواہ وہ لفظوں میں ہو یا نیت میں، اور شاید سائل کو اسی پر خدشہ ہے کہ زید نے بیوی کا نام نہ لیا حالانکہ کلامِ زید اضافت سے خالی نہیں کیونکہ زید نے متعدد بار اپنی بیوی کو مخاطَب اور متوجہ کرکے الفاظِ طلاق کہے ہیں،شروع میں کہا یہ تیسری ہے تو بیوی نے کہا میں نہیں سنی اور پھر آخر میں کہا:ہوگیا تیرا،جس سے صاف ظاہر ہے کہ اُس نے اپنی بیوی کو ہی تین طلاقیں دی ہیں جیسا کہ اُس کی موصول شدہ گفتگو اور سوال سے ظاہر ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ خطاب اضافتِ معنویہ سے ہوتا ہے۔چنانچہ علّامہ سیّد محمد امین ابن عابدین شامی حنفی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۲۵۲؁ھ تحریر فرما تے ہیں:

وَلَا يَلْزَمُ كَوْنُ الْإِضَافَةِ صَرِيحَةً فِي كَلَامِهِ؛ لِمَا فِي الْبَحْرِ لَوْ قَالَ: طَالِقٌ فَقِيلَ لَهُ مَنْ عَنَيْت؟ فَقَالَ امْرَأَتِي طَلُقَتْ امْرَأَتُهُ. اھ۔

(رد المحتار،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق)

لہٰذا اضافت پائی گئی ہے اور ہندہ پر طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے اور اب وہ بے حلالہ زید کے لئے قطعاً حلال نہیں ہوسکتی۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ‘‘

پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔(کنز الایمان سورہ بقرہ۲؍۲۳۰)   

لہٰذا زید پر لازم ہے کہ وہ اپنی سابقہ بیوی سے الگ رہے اور ہندہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارے، عدت گزرنے کے بعد وہ کسی بھی صحیح العقیدہ مسلمان سے نکاح کرسکتی ہے، اور اگر ہندہ اور زید ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں بلکہ ساتھ ہی رہیں تو جملہ مسلمانوں پر اطلاع پاتے ہوئے لازم ہوگا کہ وہ ان کا اسلامی بائیکاٹ کریں چنانچہ قرآن کریم میں ہے:وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔( کنز الایمان سورہ انعام ۶؍۶۸)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ

محمد اُسامہ قادری

متخصص فی الفقہ الاسلامی پاکستان،کراچی

الجواب صحیح:فقیر تاج محمد قادری واحدی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney