سوال نمبر 1723
السلام وعلیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ کیا مرتے وقت ایمان لانا شرع شریف میں مقبول ہے۔
مدلّل جواب ارسال فرمائیں براۓ مہربانی
المستفتی: محمد عمران رضا قادری
ضلع مالدہ
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب بعون اللہ ورسولہ:
مرتے وقت ایمان لانا غیرمقبول ہے
اسکو ایمان بالجبر کہتے ہیں ، ایمان البأس غیر مقبول
بأس ، خوف ، عذاب
(مصباح اللغات ص ٤٧)
مفہوم ، باس در اصل شدت اور عذاب کو کہتے ہیں یہاں مراد وہ عذاب ہے جو سکرات موت اور معائنہ احوال آخرت سے پیدا ہوں احادیث میں تواتر کے ساتھ یہ بات آئی ہے کہ موت کے وقت ہر شخص کو اپنا اپنا مال (لوٹنے کی جگہ مقبرہ وغیرہ) نظر آتا ہے مومن اپنی آنکھوں سے بہشت اور کافر دوزخ کو دیکھ لیتا ہے اگر کافر ایسی حالت میں ایمان لائے گا تو قابل اعتماد و اعتبار نہ ہوگا کیونکہ ایمان تو انسان کے غیب اور اختیار سے لانا چاہئے انسان کے قصد اس کی استمثال امر ، اور اطاعت فرمان الہی کا بڑا دخل ہے مگر ایسی حالت میں ایمان لانا ایمان بالغیب نہیں کہلاتا ہے بلکہ اضطراری حالت میں ہوتا ہے تمام اہل حق اس مسئلہ پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ ایمانِ باس مقبول نہیں ہے
جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: "فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِیْنَ فَلَمْ یَكُ یَنْفَعُهُمْ اِیْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَاؕ-سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖۚ-وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ۠"
پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا بولے ہم ایک اللہ پر ایمان لائے اور جو اس کے شریک کرتے تھے ان سے منکر ہوئے تو ان کے ایمان نے انہیں کام نہ دیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا اللہ کا دستور جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور وہاں کافر گھاٹے میں رہے
(کنزالایمان ، سورہ المٶمن ، آیت ٨٥)
حضرت علامہ شیخ اسماعیل حقی رحمة اللہ تعالی علیہ ان آیات مقدسہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا اور جب وہ ان پر واقع ہوا اس لیے کہ اس وقت ان کی قبولیت ایمان ممتنع ہوگیا تھا اور یہ امتناع عادی کہلاتا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا سنت اللہ الخ اس لیے کہ معاٸنہ عذاب کے وقت تکلیف ختم ہو جاتی ہے اس لئے کہ ایمان تکلیف کا قابل قبول ہے نہ کہ بوقت یاس نا امیدی کے ان کے لیے انتہائی قبولیت اس لئے ہو گیا کہ انہوں نے ماموربہ کے وقت کو ضائع کردیا اس لیے *لم یک معنیٰ لم یصح و لم یستقم* کیا گیا ہے اور یہ لم ینفعھم سے زیادہ بلیغ ہے اس کا اٰمنو پر عطف ہے اب معنیٰ یہ ہوا کہ وہ ایمان لائے لیکن انہیں ایمان نے نفع نہ دیا کیونکہ ان کا یہ ایمان اضطراری تھا اور بارگاہ حق میں اختیاری ایمان قابل قبول ہے ایمان اختیاری انسان کی اپنی قدرت اور اختیار سے ہوتا ہے جب اس نے عذاب کو دیکھا تو اب اس کا اختیار باقی جملہ امور سے مسلوب ہو گیا تو اب اسے سوائے ایمان کے اور کوئی اختیار نہیں رہا اور ایسا ایمان ناقابل قبول ہے جب اسے ایمان نے دنیا میں فائدہ نہ دیا تو آخرت میں بھی کوئی فائدہ نہ دے گا۔
*(تفسیرروح البیان ، جلد ١٢ ، سورہ مٶمن ، صفحہ٣٩٤ تا٣٩٥ رضوی کتاب گھردھلی)*
اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ فرعون نے دریا میں غرق ہوتے وقت کہا تھا آمنت برب موسیٰ وھارون یعنی میں ایمان لایا موسی اور ہارون کے رب پر ، تو اسکا مرتے وقت ایمان لانا بارگاہ رب العلمین میں مقبول نہیں ہوا
اور حدیث شریف میں ہے:
"عن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله عز وجل يقبل توبة العبد ما لم يغرغر"
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک غرغرہ کی نوبت نہ آجاۓ
غرغرہ موت کی حالت ، سکرات کی شدت اور روح کا حلق میں سختی بر پیدا ہونا
حاشیہ نمبر ١ مالم یغر غر ای مالم یبلغ روحہ الی الحلقوم
(سنن ابن ماجہ ، ابواب الزھد ، ص ٣١٤ مکتبہ تھانوی دیوبند)
خلاصہ یہی ہے کہ مرتے وقت ایمان لانا قابل قبول نہیں
واللہ و رسولہ اعلم
کتبہ: عبیداللہ حنفی بریلوی
0 تبصرے