سوال نمبر 1724
الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بھارت کو جنت کہنا شرعاً کیسا ہے؟ مدلل جواب عنایت فرماٸیں۔
المستفتی: محمد انور خان رضوی علیمی پتہ شراوستی یوپی۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا و مصلیا و مسلما:
صورت مستفسرہ میں بھارت کو جنت مثال کے طور پر کہے تو کہنے میں شرعا کوٸی قباحت نہیں۔ کیونکہ یہ کہنا در اصل مثال دینے کے لئے ہوگا نہ کہ حقیقی معنی میں ۔
اس طرح کی مثال کتب حدیث میں موجود ہے جس میں دنیا کو بھی جنت کہا گیا ہے ۔
مسلم شریف میں ہے: "الدنیا سجن المومن وجنت الکافر"
(ج٢،ص٤٠٧، قدیمی کتب خانہ کراچی)
یعنی دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لۓ جنت ۔
حضور صدر الشریعہ ،بدر الطریقہ،حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمة اللہ القوی (المتوفی، ١٣٦٧) صحیح مسلم شریف ، "کتاب الجنة وصفة نعیمھا واھلھا" کے حوالےسے تحریر فرماتے ہیں :جنت ایک مکان ہے کہ اللہ تعالی نے ایمان والوں کے لئے بنایا ہے اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا ۔جو کوٸی مثال اس کی تعریف میں دی جاۓ سمجھانے کے لۓ ہے ورنہ دنیا کی اعلی سے اعلی شی کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔
(بہارشریعت ،ح١،ص١٥٢،مکتبة المدینة دھلی)
فیروزاللغات میں جنت کا معنی !
باغ، بہشت، سورگ کے ہیں۔ (ص٤٧٣)
لہذا اگر کوٸی شخص اپنے دیش کی محبت ،خوبصورتی اور بہتر نظام وغیرہ کو دیکھتے ہوۓ کہے تو شرعا اس پر کوٸی پکڑ نہیں۔
ہاں اگر یہ یقین رکھ کر بولے کہ بھارت ہی جنت ہے اور رب کی بناٸی ہوٸی جنت کا منکر ہو تو ایسا کہنے والا شخص کافر ہے ۔کیونکہ جنت ودوزخ پر یقین رکھنا ضروریات دین سے ہے۔
شرح عقاٸد میں ہے: "والجنة حق والنار حق"
اور ایسا ہی بہار شریعت میں الحدیقة الندیة سے ہے: جنت ودوزخ حق ہیں ان کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (ح،١،ص ١٥٠،معادوحشر کا بیان )
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
*کتبہ: ابو کوثر محمد ارمان علی قادری جامعی ،سیتامڑھی
تخصص فی الفقہ نوری دارالافتا ٕ بھیونڈی۔
٦/محرم الحرام ١٤٤٣ھ۔
١٥/اگست ٢٠٢١ ٕ ۔
0 تبصرے