سوال نمبر 1731
الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میت کو بوسہ دے سکتے ہیں یا نہیں جیسے کی عورت عورت کو اور مرد مرد کو؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں ۔
المستفتی: محمد انور خان رضوی علیمی پتہ شراوستی یوپی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
جواب:
میت کو غسل دینے سے پہلے اور غسل دینے کے بعد بوسہ دینا جائز ہے ، البتہ مرد کا نامحرم مردہ خاتون کو یا عورت کا نامحرم مردہ مرد کو بوسہ دینا جائز نہیں ہے بلکہ مرد کے لیے مرد میت کو اور عورت کے لیے عورت میت کو بوسہ دینا جائز ہے۔
جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ: " عن عائشة رضی ﷲ عنها قالت رایت رسول ﷲ صلی الله علیه وسلم یقبل عثمان بن مظعون و هو میت حتّی رایت الدّموع تسیل " اھ
یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حضرت عثمان بن مظعون کو بوسہ دے رہے تھے جبکہ وہ وفات پاچکے تھے " اھ
( سنن ابی داؤد ج 3 ص 201 رقم 3163 : دار الفکر بیروت / سنن ترمذی ج 3 ص 314 رقم 989 : دار احیاء التراث العربی بیروت / سنن ابن ماجہ ج 1 ص 468 رقم 1456 : دار الفکر بیروت )
اور ایک روایت میں ہے کہ " عن عائشة و ابن عباس انّ ابا بکر قبَّل النبي صلی الله علیه وسلم بعد موته " اھ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو بوسہ دیا تھا " اھ
( صحیح البخاری ج 4 ص 1618 رقم 4188 : دار ابن کثیر الیمامة بیروت / مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 229 رقم 2026 : موسسۃ قرطبة مصر )
اور حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے کہ " و لا بأس بتقبيل الميت" للمحبة و التبرك توديعا خالصة عن محظور۔ فإن تقبيله صلى الله عليه وسلم عثمان للمحبة و تقبيل أبی بكر الرسول الأكرم صلى الله عليه وسلم لهما معا قوله : " خالصة عن محظور" هذا قيد في الجواز أما إذا كانت لشهوة فحرام و لو زوجة فيما يظهر لقولهم أن النكاح انقطع بموتها لذهاب محله " اھ ( حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح ج 1 ص 573 )
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: کریم اللہ رضوی
خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی
0 تبصرے