سوال نمبر 1733
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ کوئی انسان مثلاً زید صرف عبادت کرے اور کام نہ کرے جب کہ کام کرنے کی طاقت ہو اور اس کے گھر میں کھانے تک سامان نہ ہو تو زید کے اوپر شرعی حکم کیا ہوگا ۔
سائل: محمد دستگیر حسین بہرائچ شریف یوپی الہند۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
*الجواب اللھم ھدایة الحق والصواب:* صورت مسٸولہ میں زید کو چاہیۓ کہ جب کوٸی عذر نہیں تو عبادت وریاضت کے ساتھ ساتھ اپنے اہل وعیال کے لۓ رزق حلال کماۓ ورنہ گنہگار ہوگا کیونکہ اتنا کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے گزر بسر کے لئے اور جن کا خرچہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کا خرچ چلانے کے لئے اور اپنے قرضوں کو ادا کرنے کے لئے کافی ہو۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: "فرض وھو الکسب بقدر الکفایة لنفسہ وعیالہ وقضا ٕ دیونہ ونفقة من یجب علیہ نفقتہ فان ترک الاکتساب بعد ذلک وسعہ۔۔۔۔۔الخ"
نیز اسی صفحہ پر کچھ سطر کے بعد یوں ذکر ہے: "الذین قعدوافی المساجد والخانقاھات وانکروا الکسب واعینھم طامحة وایدیھم مادة الی مافی ایدی الناس یسمعون انفسھم المتوکلة ولیسوا کذلک ھکذافی الاختیارشرح المختار"
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس عشر فی الکسب، ج۵، ص٣٤٨/٣٤٩)
حدیث مبارکہ میں ہے: "طلب کسب الحلال فریضة بعدالفریضة" یعنی حضور ﷺنے فرمایا کہ حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے۔ (شعب الایمان، باب فی حقوق الاولاد ولأھلین، رقم۸۷۴۱، ج۶، ص۴۲۰)
مذکورہ بالا حدیث کے تحت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی قدس سرہ فرماتے ہیں : یہ بھی خیال رہے کہ بقدر ضرورت معاش کی طلب ضروری ہے ، صرف اکیلے کو اپنے لائق اور بال بچوں والے کو ان کے لائق کمانا ضروری ہے۔
(مراة المناجیح،رقم الحدیث ٣٩٠)
نیزارشاد ربانی ہے: "وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ "
ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔
(کنزالایمان،سورة البقرہ،آیت،٢٢٨)
مذکورہ بالا عبارتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ زید پر اس کی بیوی اور بچوں کے خرچ کی ذمہ داری ہے لھذا اسے چاہیۓ کہ عبادت کے ساتھ کام بھی کیا کرے ویسے بھی باپ اپنے بچوں کا سربراہ و حاکم ہوتا ہے اور حاکم سے اس کی رِعایا کے بارے میں سُوال ہوگا۔
جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ”الرجل راع علی اهل بيته وهومسؤل عنھم“ یعنی مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا۔
(بخاری،ج٢،ص١٥٠، حدیث: ٢٥٥٤،دارطوق النجاة)
*مراة المناجیح میں ہے: ”مرد سے سوال ہوگا کہ تو نے اپنی بیوی بچوں کے شرعی حقوق ادا کیے یا نہیں،جن کا خرچہ تیرے ذمہ تھا انہیں خرچ دیا یا نہیں اور جن کی تعلیم تجھ پر لازم تھی انہیں تعلیم دی یا نہیں۔“ (رقم الحدیث،٥٨٥،)
انتباہ : ۔یاد رکھیں کہ مال حاصل کرنے کی بعض صورتیں جائز کی ہیں اور بعض ناجائز ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جائز طریقوں پر عمل کرے اور ناجائز طریقوں سے دور رہے۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
کتبہ: ابو کوثر محمد ارمان علی قادری جامعی، سیتامڑھی
تخصص فی الفقہ نوری دارالافتا ،بھیونڈی۔
خادم:مدرسہ اصلاح المسلمین،مہیسار (دربھنگہ)
٢٤/ذوالحجہ١٤٤٢ھ۔
0 تبصرے