سوال نمبر 1775
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ قصداً سنت غیر مؤکدہ اور نفل نماز ترک کرنا کیسا ہے اور اگر امام سنت غیر مؤکدہ اور نفل بار بار ترک کرے تو اس پر شریعت کا کیا حکم ہے
المستفتی
محمد ریاض الدین قادری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسؤلہ میں قصداً سنت غیر مؤکدہ اور نفل نماز کے تارک کی اقتداء کرنے میں کوئ حرج نہیں کیوں کہ سنت غیر مؤکدہ اور نفل کے ترک کرنے سے کراہت لازم نہیں آتی
جیسا کہ بحر الرائق میں ہے
لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذ لا بد لھا من دلیل خاص
باب صلاۃ العیدین ج،٢ ص،٢٨٤
اور سیدی سرکاراعلیحضرت امام احمدرضافاضل بریلوی رضی اللہ عنہ حدیث پاک تحریر فرماتے ہیں
لما حضرابابکرن الموتُ دعا عمر فقال اتق اﷲیا عمر واعلم ان لہ عملا بالنھار لا یقبلہ باللیل و عملا باللیل لا یقبلہ بالنھار واعلم انہ لایقبل نافلۃ حتی تؤدی الفریضۃ
یعنی جب خلیفہ رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم سیّدناصدیقِ اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی نزع کا وقت ہوا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲتعالےٰ عنہ کو بلا کر فرمایا: اے عمر ﷲسے ڈرنا اور جان لو کہ ﷲکے کچھ کام دن میں ہیں کہ انھیں رات میں کرو تو قبول نہ فرمائے گا اور کچھ کام رات میں کہ انھیں دن میں کرو تو مقبول نہ ہوں گے، اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتا جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے
فتاوی رضویہ ج،١٠ ص،١٨٣ دعوت اسلامی
لہٰذا جس کےذمہ قضاءنمازیں باقی ہوں اسے چاہئے کہ نفل کی جگہ قضاء نمازیں اداکریں کیوں کہ ادائیگی میں جتنی تاخیر ہوگی گناہ کا سبب بنے گا اور نفل قبول بھی نہ ہوگی اس لئے بہتر ہے جلد از جلد قضاء نمازیں ادا کرے
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
محمد فرقان برکاتی امجدی
١٢/صفرالمظفر ١٤٤٣ ھجری
٢٠/ستمبر ٢٠٢١ عیسوی
0 تبصرے