سوال نمبر 1785
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک ہندو لڑکی مسلمان ہوئی ہے اس کا نام فاطمہ رکھا گیا ہے لیکن اس کے گھر والے کافر ہیں اور اب اس لڑکی کی شادی ہو رہی ہے تو اب نکاح میں اس کے نام کے ساتھ اس کے ہندو باپ کا نام لیا جائے گا یا کسی اور کا ؟
برائے کرم مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں
سائل :- عابد رضا
پتہ :- جھارکھنڈ
وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب بعون الملک الوھاب اللہم جعل لی النور والصواب
اس صورت میں وہ لڑکی فاطمہ جس سے پیدا ہوئی ہے اسی کا نام لیا جائے گا یعنی اس کے اسی ہندو باپ کا نام لیا جائے گا جس سے وہ پیدا ہوئی ہے ـ
جیساکہ امام عشق و محبت سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ( باپ دادا کا کافر ہونا نکاح کے وقت ان کی طرف نسبت ، نسبت سے مانع نہیں ، جیسے سیدنا عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ابن ابی جہل ہی کہا جاتا ہے ، اگرچہ وہ نہایت اخبث کافر عدواللہ تھا اور یہ جلیل القدر صحابی سردار لشکر اسلام ، ایسے ہی عمر بن خطاب ، عثمان بن عفان ، علی بن ابی طالب کہا جاتا ہے اگرچہ خطاب ، عفان ، ابی طالب ، مسلمان نہ تھے ) ـ
الحاصل نکاح کے وقت اس لڑکی کے نام کے ساتھ اسی کے باپ کا نام لیا جائے گا جس سے وہ پیدا ہوئی ہے ، یہی صحیح ہے ـ
مزید معلومات کے لیے فتاویٰ افریقہ صفحہ نمبر ٥٣/ تا ٥٥ / کا مطالعہ کریں
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ تعالیٰ اعلم
شرف قلم :- گدا ئے حبیب ملت محمد سالک رضا حبیبی
اڑیسہ، پچھم باڑ،جالیسر، بالاسور
١٣/ صفرالمظر ٣٤٤١ ھجری مطابق ٢١/ ستمبر ١٢٠٢ء بروز منگل
0 تبصرے