آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

کن ‏تعویذات ‏کو ‏پہننا ‏شرک ‏ہے؟ ‏

   سوال نمبر 1786

 السلام علیکم و رحمتہ اللہ تعالٰی و برکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسند احمد اور مستدرک الحاکم کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ( مَنْ عَلَّقَ تَمِيْمَةً فَقَدْ اَشْرَكَ ) جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔ لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف اگر صحیح ہے تو پھر اس سے کیا مراد ہے ؟  بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں 

سائل : محمد انور خان رضوی علیمی پتہ شراوستی یوپی


وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

 الجواب بعون الملک الوہاب 

یہ روایت درست ہے اور اس کے اسناد حسن ہیں جیسا کہ علامہ محقق حمزۃ نے کہا : اسنادہ حسن الحاکم ج 4 ص 219 رقم حدیث 7513 ) سکت عنه الذھبی الصحیحة ، اور مسند احمد کے مبوب اور شارح  علامہ ساعاتی مصری نے اس کے رجال کے بارے میں کہا ہے کہ "  رجاله ثقات " اھ یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے تعویذ اس عقیدے کے ساتھ پہنا کہ تعویذ بذات خود شفاء دینے والا یا بلا دور کرنے والا ہے تو ایسے عقیدے کے ساتھ تعویذ پہننا حرام بلکہ شرک ہے یا جس نے ایسا تعویذ گلے میں لٹکایا جس میں کفر و شرک کے کلمات ہوں تو قصداً اس سے راضی ہوکر ایسا تعویذ گلے میں لٹکانا حرام بلکہ کفر ہے ۔ اور اگر تعویذ میں اسمائے الہیہ اور آیات قرآنیہ وغیرہ ہوں تو پہننا جائز و درست ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ " عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال قال رسول ﷲ صلى الله تعالى علیه وسلم إذا فزع احدكم فى نومه فليقل بسم الله اعوذ بكلمات التامات من غضبه و سوء عقابه من شر عباده و من شر الشياطين و أن يحضرون فكان عبد الله يعلمها ولده من ادرك منهم و من يدرك كتبها و علقها عليه " اھ یعنی عمرو بن شعیب سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے ان کے دادا سے انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی جب نیند میں ڈرتا ہو تو یہ دعا پڑھے ( پڑھ کر سو جائے جیسا کہ حاکم نے المستدرک میں اور ابن بطہ الابانۃ میں یہی نقل کیا ہے ) بسم الله اعوذ بكلمات التامات من غضبه و سوء عقابه من شر عباده و من شر الشياطين و أن يحضرون ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو دعا کے یہ کلمات سکھاتے تھے اور نابالغ بچوں کے گلوں میں لکھ کر لٹکاتے تھے " اھ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج 5 ص 43 رقم حدیث 23547 ) یہ حدیث سنن ال ترمذی ، سنن النسائی ، مسند احمد ، الاسماء و الصفات للبیہقی ، الدعاء للطبرانی ، مستدرک حاکم وغیرہ کتب احادیث میں موجود ہے ۔ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے حاکم نے اسے صحیح الاسناد لکھا ہے ، ترمذی حسن غریب کہا ہے ۔ حدیث مذکور کے تحت شیخ عبد الحق محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں کہ " هذا هو السند فى ما يعلق فى اعناق الصبيان من التعويذات و فيه كلام و اما تعليق الحرز و التمائم مما كان من رسوم الجاهلية فحرام بلا خلاف " اھ یعنی یہ حدیث دلیل ہے ان تعویذات کے جواز پر جو بچوں کے گلے میں لٹکائے جاتے ہیں اور اس میں کلام ہے لیکن وہ گنڈے جو زمانہ جاھلیت میں لٹکائے جاتے تھے وہ بلا اختلاف حرام ہے " اھ ( مرعاۃ المفاتیح ج 8 ص 239 ) اور حدیث مذکور کی شرح میں محدث ملا علی قاری نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ " و هذا أصل فى تعليق التعويذات التى فيها اسماء الله تعالى " اھ ( مرقاۃ المفاتیح ج 4 ص 1716 ) اور حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ " گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیات قرآنیہ یا اسمائے الٰہیہ یا ادعیہ سے تعویذ کیا جائے اور بعض حدیثوں میں جو ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذات ہیں جو ناجائز الفاظ پر مشتمل ہوں جو زمانہ جاہلیت میں کئے جاتے تھے۔اسی طرح تعویذات اور آیات و احادیث و ادعیہ کو رکابی میں لکھ کر مریض کو بہ نیت شفاء پلانا بھی جائز ہے جنب و حائض و نفساء بھی تعویذات کو گلے میں پہن سکتے ہیں بازو پر باندھ سکتے ہیں جبکہ غلاف میں ہوں " اھ ( بہار شریعت ج 3 ص 56 : متفرق مسائل ) اور حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ " تعویذ لکھنا ہاتھ یا گلے میں باندھنا سنت صحابہ ہے جن تعویذ گنڈوں سے منع کیا وہ کفار کے جنتر منتر کے تعویذ ہیں جن میں شرکیہ الفاظ ہوں " اھ ( مراۃ المناجیح ج 4 ص 66 : مکتبہ ضیاء القرآن لاہور ) 


واللہ اعلم بالصواب

کریم اللہ رضوی

خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney