‎ ‏ڈی ‏این ‏اے ‏ٹیسٹ ‏کی بنیاد ‏پر زنا کا ‏ثبوت ہوگا یا نہیں ‏؟ ‏

     سوال نمبر 1803

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے پر کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر زنا بالجبر کے مقدمات کا فیصلہ کرنا اور رجم یا کوڑوں کی سزا سنانا جائز ہو گا یا نہیں؟

( برائے مہربانی با حوالہ مفصل جواب لکھیئے۔ مجمل جواب نہ تو تسلی بخش ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی مدد سے کسی اور کو قائل کیا جا سکتا ہے۔ نیز سوال کے مطابق جواب دیا جائے ناکہ یہ کہا جائے کہ فلاں جزئیے میں سے اپنا جواب نکال لو۔۔)

المستفتی :- محمد عثمان از گوجرانوالہ پاکستان


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب

ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر زنا بالجبر کے مقدمات کا فیصلہ کرنا اور رجم یا کوڑوں کی سزا سنانا درست نہیں شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ڈی این اے کیا ہے؟ ڈی این اے یعنی کہ (ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ) انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے

 ہر انسان کا ڈی این اے الگ الگ ہوتا ہے! سائنس کا کہنا ہے انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔! ڈی این اے ٹیسٹ کہ عام مقصدوں میں ایک مقصد یہ بھی ہے اپنی ذاتی خاندانی ولدیت ثابت کرنے کے لیے! تاکہ یہ جان سکے کہ کس انسان کے حقیقی والدین کون ہیں ! پھر ان لوگوں کی ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے ٹیسٹ میچنگ کر کے دکھایا جاتا ہے۔! اب زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں ہے بات سمجھ میں آگئی کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق حقیقی والدین کی اگر غیر ولدیت ثابت ہو جائے اور اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اس پر زنا بالجبر کا مقدمہ چلا کر سزا دلوانا ! یہاں ہمیشہ ایک بات خیال رکھیں ڈی این اے ٹیسٹ کا قرآن و حدیث میں کوئی اعتبار نہیں ہے اس لئے فتویٰ اس کے مطابق قرآن و حدیث کے خلاف ہوگا یونہی فیصلہ بھی! اور حد زنا یا حد قذف بھی قرآن و حدیث کے آئینے میں قرآنی قوانین و ضوابط پر ہی دئے جائیں گے کورٹ یا کچہری کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ بھی خلافِ حکمِ قرآن و حدیث فیصلہ کرے! مسلمان قرآنی حکم پر ایمان رکھتا ہے نہ کہ کورٹ کے فیصلے پر! پھر کورٹ اور کچہری کے فیصلوں میں بے انصافی اور بد عنوانی کسے نہیں معلوم؟ عموماً کورٹ کچہری کے ججز لا دین اور کفار و مرتدین ہوتے ہیں ان کے فیصلوں کا شرعاً اعتبار نہیں کیا جا سکتا قانونِ ملکی خواہ کیسا بھی توڑ مڑوڑ کر بنا لیا جائے! حدود کا حکم قانونِ الٰہی سے ماخوذ ہے بندوں کے بنائے ہوئے قانون سے ہرگز نہیں! ۔لہٰذا اس طرح ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے زنا بالجبر کا غلط الزام لگانا ناجائز و حرام ہے ! ثبوت زنا کے لئے چار عادل چشم دید گواہوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ الزام ثابت نہ کرنے کی صورت میں الزام لگانے والا خود گنہگار ہوگا اور اگر اسلامی حکومت ہوتی تو سخت سے سخت سزا کا مستحق ہوتا ،جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد سوم ردالمختار کے حوالے سے مرقوم ہے "ثبوت زنا کے لیے چار عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور زنا کا جھوٹا الزام لگانے والا 80 درے مارے جانے کا مستحق ہے، صفحہ 241،) 

مذکورہ بالا عبارات سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی بنیاد پر زنا ثابت نہ ہوگا اور جب زنا ثابت نہ ہوگا پھر فیصلہ کیسا بلکہ ڈی این اے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والا خود سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہوگا!

      واللہ اعلم بالصواب

کتبہ فقیر محمد امتیاز قمر رضوی امجدی عفی عنہ گریڈیہ جھارکھنڈ انڈیا۔

٢٢،ستمبر ٢٠٢١ بروز بدھ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney