آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

دوسری بیوی کو الگ مکان شوہر نے دیا تو کیا پہلی بیوی کا بھی حق ہے اس میں؟ ‏


       سوال نمبر 1828

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ زید کی دو بیویاں ہیں ایک بیوی سے پانچ بچے ہیں دوسری سے ابھی کوئی اولاد نہیں ہے پہلی بیوی شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے اس لئے وہ الگ رہنے کے لئے زید کی جائیداد میں حصے کا مطالبہ کرنے لگی. زید نے مکان اور زمین بیچ کر حاصل ہونے والی رقم میں سے ٣٥ لاکھ نقد اور زمین کا کچھ حصہ جسکی مالیت تقریباً آٹھ لاکھ روپے ہیں اسے دیدیا اور اپنے پاس ١٨ لاکھ روپئے رکھ لۓ  جس سے اس نے دوسری زمین خرید کر مکان بنایا جس میں زید اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہنے لگا.

سوال یہ ہے کہ کیا اس گھر میں بھی زید کی پہلی بیوی اور بچوں کا حق ہوگا اور کیا زید کے مرنے کے بعد اس میں پہلی بیوی اور بچوں کا حق وراثت میں ملے گا ۔

المستفتی :- عبداللہ گونڈی


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

زید کا موجودہ مکان جس میں ابھی وہ دوسری بیوی کے ساتھ رہتا ہے وہ اسی کی ملکیت ہے انسان کی زندگی میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا جو مالک ہوتا ہے وہ اسی کا حصہ ہوتا ہے

اور زید کے مرنے کے بعد اس گھر میں جس میں وہ ابھی دوسری بیوی کے ساتھ رہتا ہے اس میں پہلی بیوی اور اس کے بچوں کو بھی وراثت ملے گی جو ترکہ زید مرنے کے بعد چھوڑے گا

جیسا کہ قرآن مقدسہ میں رب تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ

فان کان لکم ولد فلھن الثمن مماترکتم

ترجمہ: پھر اگر تمہارے اولاد ہو توان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں(کنزالایمان،سورۃالنساء،آیت ١٢)

اور حدیث شریف میں ہے کہ

عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذااستھل الصبی صلی علیہ وورث

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب بچہ زندہ پیدا ہو تو اس پر بھی نماز پڑھی جائے گی اور اس کو وارث بھی بنایا جایا گا "

(سنن ابن ماجہ ،کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصلوۃ علی الطفل)

لہٰذا زید نےجوکچھ اپنی پہلی بیوی کو دیا وہ ہبہ کہلائے گی اور جب اس کی بیوی نے اس پر قبضہ کرلیا تو وہ اسکی ملکیت ہو گئی ہاں اگر بقیہ زمین اپنی زندگی ہی میں دوسری بیوی کے نام کردے یا اسے ھبہ کردے تو اب اس میں پہلی بیوی اور اس کے بچوں کا حق نہیں ہوگا لیکن 

والد کا کسی بیٹے یا کسی اور وارث کو بغیر شرعی وجہ کے میراث وجہ کے میراث سے محروم کر نا درست نہیں حدیث میں ہے من قطع میراث وارثہ قطع اللہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ. (مشکوٰۃ ٢٢٦باب الوصایا) اگر والد اپنی زندگی میں اپنی ملکیت اولاد کے درمیان تقسیم کرتا ہے تو تمام اولاد کو برابر حصہ دینا چاہیے کسی کو محروم کردیا گناہ ہے اور اولاد میں سے کسی کو عاق کردینا (جائیداد سے بے دخل کردینا) بھی لغو ہے اور ناجائز فعل ہے اگر والد انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں ترکہ چھوڑتا ہے تو بےدخل کرنے کے باوجود اولاد وارث ہوگی.    واللہ تعالیٰ اعلم 



کتبہ:محمد انوار رضا فیضی 

خطیب وامام نورمحمدی مسجدریتی بندر پسٹم ساگرروڈ نمبر6چمبورممبٸی۔

٢٤/صفرالمظفر١٤٤٣ھ۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney