سوال نمبر 1830
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ ظہر مغرب اور عشاء کی نماز میں جونفل نماز ہے اس کی نیت کرنے میں وقت بولا جائے گا یا نہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ دوسری نفلی عبادات کی نیت کس طرح کی جائیگی
المستفتی :- نصیب علی یوپی الہند
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
نفل نماز کسی بھی وقت کی ہو اور کوئی بھی ہو اس کے لئے مطلق نیت کافی ہے ۔ مگر احتیاط یہ ہے کہ سنت وقت ، تراویح ، قیام اللیل کی نیت کرلے ۔ اور باقی سنتوں میں سنت رسول اللہ کی کہہ لیا کریں تاکہ حضوراقدس ﷺ کی متابعت ہوجاۓ ۔ باقی ظہر مغرب وعشاء میں جو نفلیں ہیں ان کی نیت مطلق ہی کافی ہے ۔
فقیہ اعظم حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمةوالرضوان تحریرفرماتےہیں
اصح یہ ہے کہ نفل و سنت و تراویح میں مطلق نماز کی نیت کافی ہے، مگر احتیاط یہ ہے کہ تراویح میں تراویح یا سنت وقت یا قیام اللیل کی نیت کرے اور باقی سنتوں میں سنت یا نبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی متابعت کی نیت کرے، اس لیے کہ بعض مشائخ ان میں مطلق نیت کو ناکافی قرار دیتے ہیں ۔
نفل نماز کے لیے مطلق نماز کی نیت کافی ہے، اگرچہ نفل نیت میں نہ ہو۔
بہارشریعت جلداول حصہ سوم صفحہ ٤٩٧: المکتبة المدینة دعوت اسلامی ۔
دوسری نفلی عبادات میں نام لینا بہتر ہے ۔ جیسے چاشت کی نفل نماز پڑھنی ہے تو نیت اس طرح کریں ۔
نیت کی میں نے دورکعت نماز نفل چاشت واسطے اللہ تعالی کے منھ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر
اسی طرح ہرنفلی نماز جو کسی خاص مقصد کےلۓ ہو تو اس مقصد کانام لینا بہتر ہے ۔ حالانکہ نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ۔
حدیث شریف میں ہے ۔
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَلِکُلِّ امْرِئٍ مَانَوٰی
’’اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہ ہے، جو اس نے نیت کی ۔
’’ صحیح البخاري ‘‘ ، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ۔۔۔ إلخ، الحدیث : ۱ ، جلداول ۱ ، صفحہ ۵ ۔
وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب
کتبه
العبد ابوالفیضان محمد عتیق الله صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام
بتھریاکلاں ڈومریاگنج سدھارتھ نگر یوپی .
المتوطن :۔ کھڑریابزرگ پھلواپور گورابازار سدھارتھنگر یوپی ۔
٢٨ صفرالمظفر ١٤٤٣ھ
٦ اکتوبر ٢٠٢١ء
0 تبصرے