سوال نمبر 1853
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کسی نے قرض چودہ لاکھ لیا یا اس نے دیا اس شرط پے کہ وہ قرض دینا والا ہرماہ چودہ ہزار اس سے وصول کرےگا جب تک وہ پورا قرض واپس نہ کرےگا یہ شخص جس نے قرض لیا ہے اس پیسے سے روم یا فلیٹ وغیرہ بھاڑے سے لیکر دوسروں کو بھاڑے سے دے کر اس سے کمائی کی مثال کے طور پے بیس ہزار اسکی انکم ہوئی اس چودہ لاکھ سے اب وہ شخص چودہ ہزار قرض دینے والے کو ادا کرتا ہے اسطرح 6 ہزار اس کی کمائی ہوئی کیا اس طرح کی کمائی یا کاروبار کرنا درست ہے
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پرافٹ کی رقم فکس نہ ہو تب کیا صورت بنتی ہے مثلا پرافٹ کا 10% یا 5% دینا ہوگا۔۔۔کبھی 12 کبھی 14 کبھی 10
جواب عنایت فرمائیں
المستفی:محمد جنید باندرہ ممبئی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
اگر قرض اس شرط پر دیا کہ چودہ لاکھ کے علاوہ ہر ماہ مجھے چودہ ہزار دیتا رہے جب تک قرض ادا نہ کر دے بعدہ چودہ لاکھ بھی دیناہوگا تو یہ معاملہ قرض بشرط سود ہے جو قطعاً حرام و گناہ ہے اس لئے دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار اور مستحق عذاب نار ہوئے حدیث شریف میں ہے کل قرض جر منفعۃ فھو ربا یعنی قرض کی وجہ سے جو نفع حاصل کی جائے وہ سود ہے
( کنز العمال جلد ششم فصل فی لواحق کتاب الدین صفحہ ٢٣٨)
اور اگر قرض اس شرط پر دیاہے کہ ہرماہ چودہ ہزار یا دس فیصد یا بیس فیصد دیتے رہنا جب مکمل رقم اداہوجائے تو.مجھے کچھ مت دینا تویہ بالکل جائز ودرست ہے اور اس طرح کاروبار کرنے میں کوئی حرج نہیں.
ہاں اگر یہ چاہتاہے کہ مکمل رقم کے علاوہ کچھ نفع بھی حاصل کرے تو چاہئے کہ تجارت میں شرکت کرلے یعنی کچھ فیصد مقرر کرلے کہ جو نفع ہوگا اس میں سے اتنا مجھے چاہئے لیکن اس کےلئے شرط ہے کہ نفع ونقصان دونوں میں برابر شریک رہے مثلا بیس فیصد نفع چاہتاہے تو نقصان ہونے پر بھی بیس فیصد دیناہوگا.
ردالمحتار جلد پنجم صفحہ ۶۴۶ میں ہے و من حیل الضمان ان یقرضہ المال الا درھما ثم یعقد شرکۃ عنان بالدرھم وبما اقرضہ علی ان یعملا و الربح بینھما ثم یعمل المستقرض فقط فان ھلک فالقرض علیہ وکون الربح بینھما شائعا فلوعین قدرا فسدت و کون نصیب کل منھما معلوما عند العقد اھ
ایساہی فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۲۷۶ پر ہے.واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
محمد عمران نظامی قادری تنویری عفی عنہ
٢ربیع الاول ١٤٤٣ہجری
٩۔ اکتوبر۔ ٢٠٢١ عیسوی
0 تبصرے