سوال نمبر 2647
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے حوالے سے زید نے بکر کے لڑکے کا نکاح پڑھایا بکر جو کہ ایک سنی صحیح العقیدہ شخص ہے بکر کا لڑکا بھی سنی صحیح العقیدہ ہے زید نے بکر کے لڑکے کا نکاح وہابی کی لڑکی کے ساتھ پڑھایا زید نے اگر جان بوجھ کر یہ نکاح پڑھایا تو کیا یہ نکاح صحیح ہوا ؟
اگر لا علمی میں پڑھایا تو کیا یہ نکاح صحیح ہوا ؟
یا اگر زید نے وہابی لڑکی کو عقائد وہابیہ و دیابنہ سے بروقت نکاح توبہ و تجدید ایمان کروا کر نکاح پڑھایا ہو تو کیا یہ نکاح صحیح ہوا کیا وہابی لڑکی کا بروقت نکاح توبہ و تجدید ایمان معتبر ہوگا جبکہ وہابی لڑکی نے اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق نہیں کیا ہے اور رخصتی کے بعد دوبارہ اپنے میکے کچھ دن رہ کر آئی ہے کیا ان تمام صورتوں میں نکاح صحیح ہوا اگر نہیں تو زید پر کیا حکم شرع ہوگا بکر اور اس کے لڑکے پر بھی کیا حکم شرع ہوگا کیا زید کے پیچھے نماز درست ہے برائے کرم حدیث و قران کی روشنی میں مفصل و مدلل جواب دے کر شکریہ کا موقع فراہم فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل اسیر حضور تاج الشریعہ محمد ریحان رضا قادری ارشدی نعیمی خطیب و امام جامع مسجد (قاضی شہر بڑواہ ایم پی )
موبائل نمبر ۔ 8192048856
الجواب بعون الملک الوھاب
وہابیہ دیابنہ اپنے عقائد کفریہ قطعیہ کے سبب بمطابق فتاویٰ حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کافر و مرتد ہیں اور جو ان کے کفری عقائد کو جانتے ہوئے بھی ان کے کافر و مرتد ہونے میں شک کرے وہ خود کافر ہے اور اسی پر علماء عرب و عجم کا اتفاق ہے اور یہ قول من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر اسی پر دال ہے
اور وہابیہ دیوبندیہ مرتدہ سے نکاح کرنا حرام و نا جائز ہے کہ مرتدہ کا نکاح کسی سے منعقد ہی نہیں ہو سکتا ہے جیساکہ فتاویٰ ہندیہ جلد اول صفحہ 282 میں ہے" ولا یجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ وکذالک لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذا فی المبسوط "یعنی مرتد کا نکاح مرتدہ، مسلمہ اور کافرہ اصلیہ کسی سے جائز نہیں۔ اور ایسے ہی مرتدہ کا نکاح کسی سے جائز نہیں ایسا ہی مبسوط میں ہے ۔
اور حضور اعلی حضرت امام احمدرضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "جسے یہ معلوم ہوکہ دیوبندیوں نے رسولﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین کی ہے پھر ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہےاسے مسلمان نہ کہا جائے گا کہ پیچھے نماز پڑھنا اس کی ظاہر دلیل ہے کہ ان کو مسلمان سمجھا اوررسولﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کو مسلمان سمجھنا کفر ہے اسی لئے علمائے حرمین شریفین نے بالاتفاق دیوبندیوں کو کافرمرتد لکھا اور صاف فرمایاکہ:
من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر
جس نے ان کے کفر وعذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے
جوان کے عقائد پر مطلع ہو کر انہیں مسلمان جاننا درکنار ان کے کفر میں شک ہی کرے وہ بھی کافر اور جن کو اس کی خبر نہیں اجمالاً اتنا معلوم ہے کہ یہ برے لوگ بدعقیدہ بد مذہب ہیں وہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے سخت اشد گنہگار ہوتے ہیں اور ان کی وہ نمازیں سب باطل وبیکار "
خلاصہ اگر زید نے دیدہ دانستہ وہابیہ کو مسلمان سمجھ کر نکاح پڑھایا تو اس پر لازم ہے کہ علانیہ توبہ و استغفار و تجدید ایمان کرے اور اگر بیوی والا ہو تو تجدید نکاح بھی کرے اور نکاح کے باطل ہونے کا اعلان کرے نکاحانہ پیسہ بھی واپس کرے اور اگر نہیں جانتا تھا انجانے میں پڑھا دیا تو نکاح کے باطل ہونے کا اعلان کرے نکاحانہ پیسہ واپس کرے مزید توبہ و استغفار کرے اور آئندہ نکاح پڑھانے سے پہلے تحقیق کرلے پھر پڑھائے اور بکر پر لازم ہے کہ فوراً وہابیہ کو اپنے لڑکے سے جدا کرے بکر اور تمام معاونین پر دیدہ دانستہ اور انجانے دونوں صورتوں میں وہی حکم ہوگاجو حکم زید پر ہے!
اگر کوئی مذہب اسلام قبول کرلے تو اس سے نکاح کرنا جائز ہے بلا شبہ نکاح ہو جائے گا جیساکہ حضور بدر ملت علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں " کافرہ عورت کو مسلمان کرکے اس سے نکاح کرنا جائز ہے" (فتاوی فیض الرسول جلد اول صفحہ 608)مگر حالات اور نوعیت کے اعتبار سے اطمینان ہونا ضروری ہے وہابی کی لڑکی کو نکاح سے پہلے توبہ کروا لیا پھر فوراً نکاح پڑھا دیا یہ درست نہیں کیونکہ وہابیہ دیابنہ اپنا مطلب نکالنے کے لئے محض توبہ کرلیتے اور حقیقت میں اپنے ہی مذہب پر قائم رہتے اور کچھ دنوں بعد الٹا اپنے رشتہ دار کو ہی وہابی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ایسی صورتوں میں اگر لڑکی نے وہابیت سے توبہ کرلیا تو اس کے والدین اور گھر والوں کو بھی توبہ کی دعوت دیں اگر وہ بھی وہابیت سے توبہ کرلیں تو ٹھیک ورنہ لڑکی کو اس کے وہابی رشتہ داروں سے قطع تعلق کو کہیں اگر وہ قطع تعلق کو تیار ہے تو پھر کچھ مدت تک انتظار کریں کہ وہ اپنے عہد پر قائم ہے یا نہیں جب اطمینان ہو جائے پھر نکاح کریں جیساکہ شراب پینے والا اگر توبہ کرلے تو فوراً اسے امام نہیں بنا دیا جاۓ گا ، بلکہ اطمینان کے لئے کچھ روز دیکھا جائے گا ۔ فاسق کی گواہی بعد توبہ فوراً نہیں قبول کی جائے گی جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے " الفاسق اذا تاب تقبل شھادتہ مالم یمض علیہ زمان یظھر علیہ اثرالتوبہ (جلد 3 صفحہ402)۔ فاسق نے توبہ کی تو اس کی گواہی فی الحال مقبول نہ ہوگی جب تک کہ اس قدر زمانہ گزر جائے کہ توبہ ظاہر ہو۔
اب چونکہ سوال سے ظاہر ہے کہ لڑکی رخصتی کے بعد دوبارہ اپنے والدین کے گھر گئی اور کئی روز رہ کر واپس ہوئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے اپنے وہابی رشتہ داروں سے قطع تعلق نہیں کیا پھر زید کا توبہ کرواکر نکاح کردینا اور اس لڑکی کا تعلق وہابیوں سے بر قرار رکھنا چہ معنی دارد ایسی صورت میں بھی زید پر لازم ہے کہ توبہ و استغفار کرے اور نکاح کے باطل ہونے کا اعلان کرے اور نکاحانہ واپس کرے
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں " مرتد والدین کے لڑکے اور لڑکیاں اگر ان کے ساتھ رہتے سہتے ہیں اور قطع تعلق ان سے نہیں کئے ہیں تو اگرچہ ان کے خیالات نامعلوم جیسے ہوں ان سے رشتۂ نکاح پیدا کرنا جائز نہیں کہ اگر وہ مرتد نہیں تو کم ازکم گمراہ ضرور ہیں اور گمراہ سے بھی مناکحت جائز نہیں ۔ اور پھر ان کے خیالات نامعلوم جیسے کیوں ہوتے ہیں ؟ لڑکا لڑکی دینے والے پہلے ان کا عقیدہ کیوں نہیں معلوم کرتے ؟ خلاصہ یہ کہ جن کے والدین مرتد یا گمراہ ہوں اور ان کا والدین سے قطع تعلق نہ ہو تو ان کے عقد میں شریک ہونا اور ان کا نکاح پڑھانا جائز نہیں ۔ اور جو امام کہ پیسے کی لالچ میں جائز نا جائز نہ دیکھے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کہ ایسا امام بے غسل و وضو بھی نماز پڑھا سکتا ہے (فتاوی فیض الرسول جلد اول صفحہ 617)
لہذا مذکورہ صورتوں پر زید پر جو حکم شرع نافذ ہو رہا ہے اس پر عمل کرے تو ٹھیک ورنہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسے فوراً منصب امامت سے جدا کرے اور سختی سے بائیکاٹ کرے قال اللہ تعالیٰ " وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(سورہ انعام آیت نمبر 68)
اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
نوٹ وہابیہ لڑکی اگر وہابیت سے توبہ و استغفار کرکے اپنے تمام وہابی رشتے داروں سے قطع تعلق کرتی ہے چونکہ وہ سنی کے گھر آ چکی ہے جب کچھ روز بعد اطمینان ہو جائے پھر نکاح کرکے اسے رکھے اور اگر ایسا نہیں کرتے اور لڑکی وہابیت پر ہی قائم رہی تو محض زنا ہوگا اور جتنے لوگ اس رشتہ کو جوڑنے میں شامل ہوں گے سب کے سب گنہگار مستحق عذاب نار ہوں گے
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد مدثر جاوید رضوی
مقام۔ دھانگڑھا، بہادر گنج
ضلع۔ کشن گنج، بہار
0 تبصرے