سوال نمبر 2646
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
علماء کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں مسئلہ پیش ہے کہ نیا کپڑا بغیر دھلے پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں یا دھلنا ضروری ہے؟؟
سائل سید عنایت اللہ رضوی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
{بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}
الجواب بعون الملک الوھاب:”پڑھ سکتے ہیں
کیونکہ کپڑا خواہ نیا ہو یا پرانا اس کی اصل طہارت ہے جب تک اس کی ناپاکی کا تیقن نہ ہو اس میں بغیر دھوئے نماز پڑھنے میں کوئی حرج ہے
”الاشباہ والنظائر“میں ہے:”الیقین لا یزول الا بالشک۔۔۔۔۔ مع ان الاصل طہارہ الثوب۔ ترجمہ: یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ اصل کپڑے کی طہارت ہے اھ...(القاعدۃ الثالثة)
امام فقیہ ابو الفتح ظہیر الدین عبد الرشید بن ابو حنیفہ ابن عبد الرزاق الولوالجی المتوفی٥٤٠ھ علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے"لا بأس بلبس ثیاب أھل الذمّة والصلوٰة فیھا وأما الإزار والسراویل فإنھا تکرہ الصلوٰة فیھما ما لم یغسلا في قول أبي حنیفة و محمد، وقال أبو یوسف: أجزأہ بلا کراھة، أمّا الجواز في الکل فلأن الطھارة في الثیاب أصل، ولیس فی حالة الکفر ما یوھم نجاسة ثیابھم، فلھذہ العلة لم یکرہ أبو یوسف في الإزار والسراویل وھما کرھا.
ترجمہ: ذمی کے بنائے ہوئے کپڑے پہننے اور اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور لیکن ازار اور سراویل کو جب تک دھویا نہ جائے ان میں نماز پڑھنا امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمهما الله کے نزدیک مکروہ ہے، اور امام ابو یوسف رحمہ الله نے فرمایا کہ نماز بغیر کراہت کافی ہے، لیکن نماز تمام کپڑوں میں جائز ہے اس لیے کہ کپڑوں میں طہارت اصل ہے، اور حالت کفر میں بنائے ہوئے کپڑوں میں نجاست یقینی نہیں ہے، اسی علت کی وجہ سے امام ابو یوسف نے ازار و سراویل میں مکروہ نہیں قرار دیا اور طرفین نے مکروہ قرار دیا ہے۔
(الفتاوی الولوالجیة، کتاب الطھارۃ، الفصل الثانی، جلد ۱، صفحہ ٤٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
والله تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبه عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند
خادم الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند
١٩ جمادی الاخر ١٤٤٦ھ۔ ٢١ دسمبر ٢٠٢٤ء۔ بروز ہفتہ
0 تبصرے