آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

اللہ عز و جل کی بارگاہ میں،، ہوس،، کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟ ‏


سوال نمبر 1866

 السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اللہ رب العزۃ کی بارگاہ میں ہوس کا لفظ استعمال کرنا کیسا ہے 

یعنی انہیں تو عرش پہ محبوب کو بلانا تھا

 ہوس تھی دید کی معراج تو بہانا تھا

جواب عنایت فرما کر شکریا کا موقع دیں عند اللہ ماجور ہوں 

المستفتی :-محمد ہاشم غلام ازہری


وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکا تہ

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

  الجواب بعونہ تعالی 

بارگاہ رب العزت میں ھوس کا لفظ استعمال کرنا سخت ناجائز وحرام بلکہ کفر ہے جیساکہ 

 حضور شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ مذکورہ  شعر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ھوس اصل میں عربی لفظ ہے  اس کے اصل معنیٰ ایک قسم کے جنون کے ہیں اور خفت عقل کے ہیں المنجد میں ہے الھوس طرف الجنون وخفتہ العقل یقال براسہ ھوس ای دوران اردوی ـ جس کاترجمہ مصباح اللغات میں یوں کیا ہے جنون کی ایک قسم ہے سبکی عقل اور کہاجاتا براسہ ھوس اس کے سر میں چکر ہے  غیاث  اللغات میں اس لفظ  کے معنی یوں لکھے ہیں نوعے از جنون دیوانہ شدن بمعنی آرزووشوق چیزے وعشق خام وناقص اردومیں اس کے معنی مزموم خواہش کے ہیں مزید چند سطر بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ شعر کلمہ کفر ہے اللہ عزوجل ہربری چیز سے پاک ہے اس کی طرف ہوس کی نسبت کرنی گستاخی ہے جس نے بھی یہ شعر کہا کہ ہوس کہ دید تھی معراج کا بہانا تھا اس پر اور جس قوال نے اسے گایا اورجن لوگوں نے سن کر پسند کیا اور وہ سب جنھوں نے اس شعر سے استدلال کیا ان سب لوگوں پر توبہ تجدید ایمان اور بیوی والے ہیں تو تجدید نکاح بھی لازم ہے رہ گیایہ  بہانا کہ ہماری مراد ہوس بمعنی شوق کے ہیں یہاں پر قابل قبول نہیں اس لئے وہ اردو میں بول رہے ہیں اور اردو میں ہوس کے معنی مطلقاشوق کے نہیں بلکہ مزموم شوق کے ہیں فتاوی شارح بخاری جلد اول  باب عقائد متعلقہ ذات وصفات الہی صفحہ ۲۱۷ اور ہاں اگر ھوس کی جگہ طلب کردیا جائے تو مزکورہ شعر کے پڑھنے میں قباحت نہیں واللہ تعالی ورسولہ اعلم بالصواب

کتبہ حقیر عجمی  محمد علی قادری واحدی ۱۰ ربیع الغوث ۱۴۴۳ ھجری




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney