عقیقہ کرنا کہاں سے ثابت ہے؟

 سوال نمبر 1258


السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ

عقیقہ کرنا کہاں سے ثابت ہے اور سب سے پہلے کس نے عقیقہ کیا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

نیز یہ بھی بتائیں کہ عقیقہ کس نبی کے زمانے سے ہو رہا ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں 

برائے کرم جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی 


المستفتی محمد سہیل رضا قادری لکھیم پوری






وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب:

عقیقہ کرنا حدیث شریف سے ہے ( ١)بخاری نے سلمان بن عامر  ضبی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں میں نے رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی جانور ذبح کرو اور اس سے اذیت کو دور کرو یعنی اس کا سر مونڈا دو۔


(۲)ابو داؤد و ترمذی و نسائی نے اُمّ کرز رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہتی ہیں  میں نے رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو فرماتے سُنا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک اس میں حرج نہیں کہ نر ہوں یا مادہ   


(٣) امام احمد و ابو داود و ترمذی و نسائی سمرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا لڑکا اپنے عقیقہ میں  گروی ہے ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے اور سر مونڈا جائے گروی ہونے کا یہ مطلب یہ ہے کہ اس سے پورا نفع حاصل نہ ہوگا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض نے کہا بچہ کی سلامتی اور اس کی نشو و نما اور اس میں اچھے اوصاف ہونا عقیقہ کے ساتھ وابستہ ہیں  زمانۂ جاہلیت میں بھی جب بچہ پیدا ہوتا تو بکرا ذبح کر کے اس کے خون کو بچے کے سر پر لگاتے لیکن کونین کے والی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رسم جاہلیت کو ختم فرما کر ایک مستحسن طریقہ عطا فرمایا


جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

 ابو داؤد نے حضرت بریدہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں  جب ہم میں کسی کے بچہ پیدا ہوتا تو بکری ذبح کرتا اور اس کا خون بچہ کے سر پر پوت دیتا

اب جبکہ اسلام آیا تو ساتویں  دن ہم بکری ذبح کرتے ہیں اور بچہ کا سر مونڈاتے ہیں اور سر پر زعفران لگا دیتے ہیں


اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک سے ہے

سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عقیقہ کی تلقین کی اور خود نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے نام عقیقہ فرمایا

عقیقہ کرنا سنت ہے بہتر یہ کہ بچے کے پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی لڑکے کے لیے دو بکرا لڑکی کے لیے ایک بکرا ذبح کرے اور سر مو‌نڈا کر بالوں کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرے اور عقیقہ کے بکرے اور  گوشت کا وہی حکم ہے جو قربانی کا ہے 


جیسا کہ بہار شریعت میں ہے:  عقیقہ کا جانور انہیں  شرائط کے ساتھ ہونا چاہئے جیسا قربانی کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا گوشت فقراء اور عزیز و اقرباء دوست و احباب کو کچا تقسیم کر دیا جائے یا پکا کر دیا جائے یا ان کو بطورِ ضیافت اور دعوت کھلایا جائے یہ سب صورتیں جائز ہیں


(بہار شریعت جلد سوم حصہ پانزدہم  عقیقہ کا بیان) 


واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


العبد محمد عمران قادری تنویری عفی عنہ

١٥ جماد الاولی ١٤٤٢

٢٩     دسمبر    ٢٠٢٠







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney