آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

دو بیٹے ایک بیٹی، بیوی اور ماں میں کس طرح ترکہ تقسیم ہو؟


سوال نمبر 1921
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فلاں شخص کا انتقال ہوگیا ہے اس نے اپنے پیچھے دو بیٹے ایک بیٹی، بیوی اور ماں کو چھوڑا ہے، اب ترکہ کیسے لگے گا اور ماں کتنا پائے گی یا نہیں؟
 (المستفتی محمد ندیم اختر رضوی کٹیہاری)




 وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
 باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:
صُورتِ مسئولہ میں برتقدیر صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو تو تہائی ١/٣ مال سے اسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا مکمل ترکہ ایک سو بیس حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو آٹھواں حصہ یعنی پندرہ(١٥) حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔ (النساء:١٢/٤) ترجمہ کنز الایمان:پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں ہے۔ اور ایک سو بیس سہام میں سے چھٹا حصہ یعنی بیس(٢٠) حصے مرحوم کی والدہ کو ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدہ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ۔(النساء:١١/٤) ترجمہ کنز الایمان:اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو۔ اور بقیہ پچاسی(٨٥) حصے مرحوم کی اولاد کے درمیان تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو چونتیس چونتیس(٣٤،٣٤) حصے ملیں گے جبکہ بیٹی کو سترہ(١٧) حصے ملیں گے، کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی بنسبت دگنا ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔(النساء:١١/٤) ترجمہ کنز الایمان:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔ 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
کتبہ:
محمد اسامہ قادری پاکستان،کراچی پیر،٢٢/جمادی الاولیٰ١٤٤٣ھ۔٢٧/دسمبر٢٠٢١ء



ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney