آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

اورل سیکس کرنا کیسا ہے؟


سوال نمبر 1928
 السلام علیکم ورحمة اللہ و برکا تہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اورل سیکس یعنی شوہر وبیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چوس سکتے ہیں یانہیں؟مدلل ومفصل جواب درکار ہے؟ 
 المستفتی:- صادق علی 




 وعلیکم السلام ورحمةاللہ و برکا تہ ۔ 
بسم الله الرحمن الرحیم
 الجواب بعون الملک الوھاب ھو الھادی الی الصواب

 اللہ تعالیٰ جل شانہ نے جس طرح سے عورت کو باعث تسکین بنایا ہے اسی طرح اس سے نفع لینے کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ربا نی ہے( نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ‘‘) تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں ، تو آؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو۔ (کنز الایمان ،سورہ بقرہ آیت نمبر۲۲۳) یعنی عورتوں سے اولاد کا حصول مقصود ہے جس کے لئے فرج ہی متعین ہے اور اس کے علاوہ جیسے دبر یا منہ بے سود ہیں کہ اس سے اولاد کا حصول ممکن نہیں تو یہ کار زیاں یقینا جائز و درست نہیں البتہ دیگر اعضاء بدن سے فائدہ اٹھانا مثلاً پستان چومنا پیٹ ،پیٹھ کلائی ،گلا،گردن ،پیشانی ،کو بوسہ لیناچومنا جائز ہے بلکہ اگر طرفین کے جوش بڑھانے کا مقصد ہو تو یہ باعث ثواب بھی ہے ۔مگر اس کامطلب یہ ہر گز نہ ہوا کہ ایک دوسرے کیہ شرمگاہ کو چومے یا چاٹےکیونکہ یہ جانوروں کا طریقہ ہے۔ اورل سیکس (0ral-sex) شرعاًناجائز ہے، اورکئی وجوہات کی بنا پر ناپسندیدہ وگھٹیاعمل ہے۔(۱) یہودونصاری کی پیروی کرنا(۲)بے حیائی کرنا(۳)غلاظت منہ میں لینا یاچاٹنا۔ (۴) منی یامذی، کالعاب کے ساتھ حلق سےاترنا ۔ اب میں ان چاروں پہلؤوں پر تفصیل سے تحریرکرتاہوں ملاحظہ کریں۔ (۱)یہودونصاری کی پیروی کرنا؟ شوہر وبیوی کاایک دوسرےکی شرمگاہ کو چومنےچاٹنے کو اورل سیکس (0ral.sex) کہاجاتاہےیہ جانوروں کاطریقہ تھا مگر مغربی تہذیب کے لوگوں نے اسے اختیار کرلیا پھر بلو یعنی سیکسی فلم(BP)کو دیکھنے والے گھٹیا قسم کے مسلمانوں نے اپنالیا جب کہ پیغمبراسلام ﷺ کافرمان عالیشان ہے(مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْ مٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )یعنی جو کسی قوم سے مشا بہت کرے گا تو وہ انہیں میں سے ہو گا ۔
(رواہ ابو داؤد ،مشکوٰۃ صفحہ ۳۷۵ ،کتاب اللباس فصل ثا نی ) تومسلمانوں کوچاہئے تھا کہ اللہ و رسول کی پیروی کرتے نہ جانوروں کی ۔ ارشادربانی ہے(’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ) اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول(ﷺ) کا ۔(سورہ نساء،۵۹) مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اپنی خواہشات کے لئے یہودونصاری کی پیروی کرنے لگ گئے ٹھیک فرمایا تھا پیغمبر اسلام ﷺ نے( ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏الْيَهُودُ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّصَارَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: فَمَنْ‘‘) تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ(چھپکلی سے ملتا جلتا ایک جا نور ہے اس ) کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے (راوی حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے)پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ؟ فرمایا پھر اور کون؟( یعنی وہی مراد ہیں )۔(صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۳۲۰) (۲)بے حیائی کرنا؟ بےحیائی کس قدر ناپسندیدہ اورگھٹیا عمل ہے ہر ذی وقار شخص کومعلوم ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں بے حیائی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے
( ’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ‘‘ )بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ تم دھیان کرو۔( کنز الایمان ،سورہ نحل ۹۰) نیز فرماتا ہے(’’وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ‘‘)اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ۔(کنز الایمان،سورہ انعام، ۱۵۱) مذکورہ بالاعبارت سے ظاہر ہوگیا کہ بےحیائی کتنا گھٹیا عمل ہے اور کس قدر رب تعالیٰ کو ناپسند ہے لہذا اس بےحیائی سے دور رہیں اورشیطان کی پیروی نہ کریں کیوں کہ شیطان توچا ہتا ہےکہ بندۂ مومن کوبےحیائی اور برائی میں ملوث کردے جیساکہ ارشاد ربانی ہے(’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَر‘‘)اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا۔(کنز الایمان،سورہ نور،آیت ۲۱) نیزفرماتاہے(’’اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ ‘‘) وہ (شیطان)تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا۔(کنز الایمان سورہ بقرہ، آیت ۱۶۹) (۳)غلاظت منہ میں لینایاچاٹنا ہمارا اسلام ہمیں پاکی و نظافت کا درس دیتا ہے ہر وہ چیز جو ہمارے منہ کو پراگندہ کر دے اس سے بچنے کی تلقین کرتا جیسے(۱) کھانے سےپہلے ہاتھ دھونے کاحکم ہے تاکہ ہاتھ کا میل منھ میں نہ جانے پا ئے ۔حدیث شریف میں ہے(’عن أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن ينام وهو جنب توضأ ، وإذا أراد أن يأكل غسل يديه۔(رواہ النسائي)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی سونے کا ارادہ کرتے اور آپ حالت جنابت میں ہوتے تو وضو کرتے اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے ۔(نسائی) ایک دوسری حدیث میں ہے(’الوضوء قبل الطعام حسنة، وبعد الطعام حسنتان‘‘) کھانے سے پہلے ہاتھ دھولینا ایک نیکی اور کھانے کے بعد دونیکیاں ہیں۔ (کنزالعمال) (۲)سوکراٹھنےکے بعدنبی کریم ﷺ نے ہاتھ دھونے کاحکم دیاکہ کہیں ہاتھ رات میں شرمگاہ وغیرہ میں نہ لگا ہواور اس کی نجاست منہ میں داخل ہوجا ئے حدیث مبارکہ ہے (’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهَا فِي وَضُوئِهِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ‘‘)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو پانی والے برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ دھولے۔ اس لیے کہ اس کو یہ معلوم نہیں کہ رات سوتے میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا۔(مؤطاامام محمد ) دوسری حدیث میں ہے
(’’‏‏‏‏‏‏عَنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَعَا عَلِيٌّبِمَاءٍفَغَسَلَ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الْإِنَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ‘‘)حضرت حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضرت علی رضی اللہ نے پانی منگایا اور برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ (سنن ابن ماجہ) (۳) قضائے حاجت کے وقت دایاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانےسے نبی کریم ﷺ نے منع کیا ہے۔حدیث شریف میں ہے( ’’لَا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ وَهُوَ يَبُولُ، وَلَا يَتَمَسَّحْ مِنَ الْخَلَاءِ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاء‘‘) تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے ہوئے اپنا آلہ تناسل دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے، اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے، اور نہ ہی برتن میں سانس لے۔ (صحیح مسلم) (۴) حضور اکرمﷺ نے ہمیں داہنے ہاتھ سے کھانے کاحکم فرمایااور بائیں ہاتھ سے قضائے حاجت کا حکم فرمایا تاکہ جس ہاتھ سےہم کھاتےہیں وہ ہاتھ نجاست آلود نہ ہوجیساکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا سے روایت ہے
( ’’كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى‘)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائیاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے ہوتا تھا اور آپ کا بائیاں ہاتھ قضائے حاجت اور گندگی والے امور کے لیے۔ (سنن أبی داود) ایک دوسری حدیث میں ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا(’’لَا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ وَهُوَ يَبُولُ، وَلَا يَتَمَسَّحْ مِنَ الْخَلَاءِ بِيَمِينِهِ‘‘) تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے ہوئے اپنا آلہ تناسل دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے، اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔ (صحیح مسلم) مذکورہ بالاعبارتوں سے یہ ظاہر ہے کہ جو مذہب بغیر دھوئے ہاتھ کو منھ ڈالنے سے منع کرتاہو دائیں ہاتھ سے قضائے حاجت کی اجازت نہ دیتاہو۔حتی کہ بیت الخلاء میں تھوکنے کو منع کرتاہوکیا وہ مذہب ہمیں اس بات کی اجازت دیگا کہ ہم اپنےمنھ میں غلاظت لیں ؟ نہیں ہرگز نہیں کیونکہ منھ کو اللہ تعالی نے صرف کھا نےکےلئےنہیں بنایا ہے بلکہ تلاوت قرآن کےلئے بھی بنایاہے۔حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (’’طيِّبُوا أفواهَكُم بالسواكِ، فإِنَّها طُرُقُ القرآنِ‘‘ )یعنی اپنے مونہوں کو مسواک سےصاف رکھو،بے شک یہ قرآن کے راستے ہیں۔ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے مسواک کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانِ گرامی بیان کیا کہ جب کوئی بندہ مسواک کر کے نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے پیچھے قرآن سننے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔قرآنِ پاک کی محبت اس فرشتے کو مسلسل نمازی کے قریب لاتی رہتی ہے ،حتیٰ کہ وہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے۔پھر نمازی کے منہ سے قرآنِ کریم کا جوبھی لفظ نکلتا ہے ،وہ فرشتے کے پیٹ میں چلا جاتا ہے ۔لہٰذا تم اپنے منہ صاف رکھا کرو۔(کتاب الزہد للامام عبدالله بن المبارک) نبی کریم ﷺ نے فرمایا(’ إذا قام أحدكم إلى الصلاة فليغسل يديه من الغمر فإنه ليس شيء أشد على الملك من ريح الغمر، ما قام عبد إلى الصلاة قط إلا التقم فاه ملك، ولا يخرج من فيه آية إلا تدخل في في الملك. "الديلمي عن عبد الله بن جعفر‘‘)جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ اپنے ہاتھوں سے چکنائی کو دھودے۔ بیشک فرشتوں کو (گوشت وغیرہ کی) چکنائی سے زیادہ کوئی چیز بدبودار محسوس نہیں ہوتی، بندہ جب بھی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے فرشتہ منہ کھول لیتا ہے اور کوئی آیت وغیرہ آدمی کے منہ سے نکلتی ہے تو وہ فرشتے کے منہ میں داخل ہوجاتی ہے۔ (کنزالعمال ) مذکورہ بالاعبارت کو باربار پڑھیں اور غور کریں کہ کیاہم درست کررہےہیں ؟کیاہمارا یہ فعل شرع کے موافق ہے؟آیااگر ہم ایساکرتے رہے تو کیافرشتہ ہمارے منہ کے قریب آئے گا ؟کیاہماری تلاوت کوفرشتہ اپنےمنہ میں داخل کرے گا ؟نہیں ہرگز نہیں۔ تو خدارا اپنے اس فعل قبیح سے بازآئیں اوردنیاوآخرت کو برباد نہ کریں ۔ (۴) منی ،یامذی لعاب کے ساتھ حلق سے اترنا۔ اورل سیکس کرنےمیں بعض اوقات منی خارج ہوجاتا ہے اورلعاب کے ساتھ حلق سے اترجاتا ہے جبکہ منی ائمہ احناف کے نزدیک ناپاک ہےجیسا کہ ہدایہ میں ہے’’ والمنی نجس یجب غسلہ‘‘منی نجس ہے اور اس کا دھونا واجب ہے۔(باب الانجاس) اورشرح وقایہ میں ہے(’’وعن المنی بغسلہ سواء کان رطبا اویابساً‘‘)اور منی دھو نےسے(پاک ہوتی ہے)خواہ خشک ہویاتر۔(با ب الانجاس) فتاوی ہندیہ میں ہے(’کل مایخرج من بدن الانسان ممایوجب خروجہ الوضوء اولغسل فھومغلظ کالغائط والبول والمنی والمذی والودی‘‘)جوچیزیں آدمی کے بدن سے ایسی نکلتی ہیں جن کےنکلنے سے وضو یاغسل واجب ہوجاتاہے وہ مغلظ ہیں جیسے پاخانہ اورپیشاب اور منی اورمذی اورودی۔ (باب النجاسۃ واحکامھاالفصل الثانی فی الاعیان النجسۃ) بہارِ شریعت میں ہے: انسان کے بدن سے جو ایسی چیز نکلے کہ اس سے غسل یا وضو واجب ہونجاست غلیظہ ہے،جیسے پاخانہ، پیشاب، بہتا خون، پیپ، بھر منہ قے، حیض و نفاس و استحاضہ کا خون،منی،مذی، ودی۔(بہارِ شریعت ح دوم نجاستوں کا بیان) مذکورہ بالاتمام عبارتوں سے اورل سیکس کی حرمت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ کیونکہ منی، مذی مرد کی ہو یا عورت کی ناپاک ہے ۔اوربسااوقات منی خارج ہوکر حلق سے اتر جاتی ہے جوظن غالب ہے اور اگر بالفرض خارج نہ ہو جب بھی جائز نہیں کیونکہ بحالت شہوت مرد کے ذکر سے بھی اور عورت کی فرج یعنی شرم گاہ سےرطوبت نکلتی ہے جو مذی کہلاتی ہے جب کہ وہ نجس بھی ہے اور حرام بھی۔ ا گر کوئی مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ چوستا یا چاٹتا یا اسے منہ لگاتا ہے تو اسکا منہ اس نجاست سے نہیں بچ سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ذکر (آلہ تناسل) کو منہ میں داخل کرے اور چوسےتو وہ بھی غلبہ شہوت کی بناء پر نکلنے والی مرد کی مذی سے نہیں بچ سکتی بلکہ وہ مذی انکے منہ میں داخل ہوکر لعاب کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور بسا اوقات لعاب نگلنے کی صورت میں معدہ تک بھی جا پہنچتی ہے۔ اور یہ نہایت ہی گھٹیا اور رذیل حرکت ہے۔جبکہ شریعت اسلامیہ نجس اور خبیث کو حرام قرار دے کر اسے کھانے پینے سے منع کرتی ‘ اور گھٹیا عادتوں سے بچنے کا حکم کرتی ہے۔ نجاست سے دور رہنے کا حکم دیتی،اورستھرائی کو پسند کرتی ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ‘‘بیشک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔(کنزلایمان،سور ہ، بقرہ۲۲۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے’’ ان اللہ کریم یحب الکرم ومعالی الاخلاق ویبغض سفسافھا‘‘یقینا اللہ تعالی باعزت ہے اور عزت اور اخلاق عالیہ کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا عادتوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(المستدرک للحاکم) نیزفرماتا ہے ’’اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ‘‘گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے اور ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے۔(کنز الایمان،سورہ، نورآیت ۲۶) آیت کریمہ کو پڑھیں اور باربار پڑھیں اورسوچیں کہ آپ گندےہیں یاستھرےہیں ؟ اگر ستھرے ہیں اور ستھروں کو پسندفرما تےہیں تو خدارا اورل سیکس سے باز رہیں اوربھی طریقےہیں سیکس بڑھانے کے لئے نہ کہ فعل ناجائز کے ذریعہ۔ مزید برآں اورل سیکس کے بہت سے نقصانات ہیں مثلاً اگر منی خارج ہو کر حلق سے اتر گئی تو اس کے اندر ملین کی تعداد میں اسپرم ہوتے ہیں جوکہ ایک قسم کے بیکٹیریا ہیں جو منہ میں جانے کے بعد نظام ہاضمہ و ذائقہ کو بالکل سے مفقود کر دیتے ہیں اور اس کے اندر hpv اکثر پایا جاتا ہے جوکہ کینسر کا باعث ہے ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو اورل سیکس کرتا ہے اس کے منہ میں نا ختم ہونے والاخطرناک چھالے پڑ جاتے ہیں اور بسا اوقات ان میں پیپ بھی بھر جاتا ہے جوکہ جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔لہذااس فعل قبیح سے دور رہیں اوراگر کسی نے جانے انجانے میں ایسا کوئی عمل کر لیا ہے تو وہ صدق دل سے توبہ کرے اور اللہ سے معافی مانگے توامیدہے کہ حق تعا لیٰ معاف فرما دے گا۔ ارشاد ربا نی ہے ’’وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْن‘‘ اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں۔ ایسوں کا بدلہ ان کے رب کی بخشش اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اور کامیوں (نیک لوگوں ) کا کیا اچھا نیگ (انعام، حصہ) ہے۔( کنز الایمان ،سورہ، بقرہ آیت ۱۳۶) نیز فرماتا ہے’’ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓىٕكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ‘‘مگر وہ جو توبہ کریں اور سنواریں اور ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گااور میں ہی ہوں بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان۔(کنز الایمان،سورہ بقرہ، آیت ۱۶۰) اور سورہ آل عمران میں ہے ’’اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘مگر جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور آپا سنبھالاتو ضرور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔( کنز الایمان ،سورہ آل عمران، آیت ۱۳۶)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
 کتبہ
 فقیر تاج محمد قادری واحدی مزید معلومات کے لئے یہاں کلک کریں



ایک تبصرہ شائع کریں

4 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney