سوال نمبر 1955
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا انبیاء کرام کے بھی سجادہ نشین ہوئے ہیں ؟کیاان کا بھی سالانہ عرس ہوتا ہے؟
المستفتی:۔عبد المبین قادری گورا چوکی گونڈہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
بے شک انبیائے کرام علیہم السلام کے جانشین ہوئے ہیں جیسا کہ قرآن نےسیدنا داؤد علیہ السلام کا جانشین آپ کے بیٹے سید سلیمان علیہ السلام کو کہا ارشاد باری تعالٰی ہے ’’وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ‘‘ اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا۔
(کنز الایمان،سورہ نمل۱۶)
(۲)سید نا موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جانے سے قبل اپنا جانشین اپنے بھا ئی حضرت ہارون علیہ السلام کو بنایا۔تفصیلی واقعہ ہ سورہ اعراف آیت نمبر ۱۵۱؍ اور اسکی تفسیر میں موجود ہے ۔
(۳)سیدنا زکریا علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے رب بیشک مجھے اپنے بعد اپنے رشتے داروں کی طرف سے دین میں تبدیلی کر دینے کا ڈر ہے اور میری بیوی بانجھ ہے جس سے اولاد نہیں ہو سکتی، تو مجھے اپنے پاس سے کسی سبب کے بغیر کوئی ایسا وارث عطا فرما دے جومیرے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا وارث(جانشین ) ہو
جس وقت حضرت زکریا علیہ السلام نے بیٹے کے لیے دعا کی اس وقت آپ کی زوجہ کی عمر تقریباً ۷۰؍سال تھی مگر پھر بھی اللہ تعا لیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قبول فرما ئی اور ارشاد فرمایا اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو آپ کا جانشین اور(آپ کے علم اور آلِ یعقوب کی نبوت کا) وارث ہو گا، اس کا نام یحیٰ ہے۔یعنی حضرت یحیٰ علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام کے جانشین ہو ئے جس کا ذکر سورہ مریم میں ہے ’’وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا(۵)یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ ﳓ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا(۶)یٰزَكَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ ۔اسْمُهٗ یَحْیٰى-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) اور مجھے اپنے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے اور میری عورت بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسا دے ڈال جو میرا کام اٹھالے۔ وہ میرا جانشین ہو اور اولادِ یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر۔اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔
( کنز الایمان،سورہ مریم آیت ۵تا۷)
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ بے شک انبیائے کرام علیہم السلام کے بھی جانشین ہو ئے ہیں ،رہی بات عرس کی تو یہ کو ئی ضروری نہیں کہ جانشین عرس کرے اور نہ ہی عرس کے لئے جانشین بنایا جا تا ہےبلکہ جانشین اس لئے ہو تے ہیں کہ جو امور کو انجام دینا چا ہتے تھے اسے مکمل کیاجا ئے یا پھر اس کی رہنمائی کی جا ئے ۔ہاں اگر کو ئی انبیائے کرام کا عرس کرنا چا ہے تو کرسکتا ہے کو ئی حرج بھی نہیں کہ جب بھی ذکر خیر کرے گا ثواب پا ئے گا یونہی صدقات وخیرات کرے گا ثواب پا ئے گا ۔
واللہ تعا لیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی
0 تبصرے