سوال نمبر 1972
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
علمائے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ کیا بد عقیدہ کے اذان دینے اور تکبیر کہنے سے نماز ہو جائیگی
جبکہ وہ وقت پر آتا ہے اور کسی طرح کا اس کا مسجد میں کوئی دخل نہیں ہے،
المستفتی :- محمد حسن رضا ہاشمی
بانکا بہار
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب:
صورت مستفسرہ میں نمازکراہت کے ساتھ ہوگی۔ کیونکہ دیوبندی، وہابی یا ان کی طرح کوٸی بھی بدعقیدہ ہو ان کی اذان، اذان نہیں یو نہی ان کی اقامت ،اقامت نہیں ۔
سیدی سرکار اعلی حضرت نوراللہ مرقدہ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:وہابی کی اذان اذان میں شمار نہیں ۔۔۔۔اوراہل سنت کو اس پراکتفا کی اجازت نہیں بلکہ ضرور دوبارہ اذان کہیں درمختارمیں ہے:ویعاد اذان کافروفاسق
(فتاوی رضویہ ج ٢ ،ص٤٢١،رضااکیڈمی،ممبٸی)
لہٰذا اذان واقامت دہراٸی جاۓ اگر اذان و اقامت نہیں دہرائی گئی اور ایسے ہی پڑھ لی گئی تو فرض نماز مکروہ ہوٸی کیونکہ بہارشریعت میں ہے کہ مسجد میں بلا اذان واقامت جماعت پڑھنا مکروہ ہے،(ج١،ح٣،ص٤٦٤،مکتبة المدینہ ،دہلی)
نیزحضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ان الجماعة بلا اذان کلا جماعة" یعنی بغیر اذان کے جماعت ایسے ہے جیسے جماعت ہوئی ہی نہیں
(فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۷ صفحہ ۸۱)
اب رہاکہ ان کاوقت پرآنا ! توانکے آنے کا کوٸی اعتبارنہیں ۔
نیز سوال میں یہ بھی ہے کہ بدعقیدہ کا مسجد میں کوٸی دخل نہیں ہے۔توسنی عوام کو چاہیۓ کہ بدعقیدہ اگرآپ کی مسجد میں آتا ہے تو اسے روکیں اپنی مسجد میں نہ آنے دیں اور اگر روکنے پر کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو ہرگز اسے اذان واقامت نہ کہنے دیں، مسجد کے منتظمین کوچاہیۓ کہ اس بات پرخواص توجہ دیں اورموذن کا اہتمام کرلیں تاکہ بدعقیدوں کی اذان واقامت سے مسجد محفوظ رہے اورنمازمیں کوٸی کراہت نہ آۓ.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر محمد معصوم رضا نوریؔ عفی عنہ
۱۳ جمادی الاخریٰ ۱۴۴۳ ھجری
۱۷ جنوری، ۲۰۲۲ عیسوی یکشنبہ
0 تبصرے