فعل امر کے ہمزہ وصلی پر ضمہ یا کسرہ کب کب آئے گا؟


 سوال نمبر 2006

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں سورۃ یوسف کے،  اس آیت میں پہلے لفظ پر پیش کیوں پڑھتے ہیں زبر یا زیر کیوں نہیں پڑھتے ﴿٨﴾ (اقْتُلُوا) يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ ﴿٩﴾

 اور دوسری جگہ سوره یس شریف کے پہلے رکوع کے آخر میں  اس آیت میں زیر کیوں پڑھتے ہیں؟ زبر یا پیش کیوں نہیں پڑھتے؟ (اتَّبِعُوا) مَنْ لَّا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَّهُمْ مُهْتَدُونَ (21)


مکمل تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں اور پہلے میں پیش اور دوسرے میں زیر پڑھنے کی وجہ عنایت فرمائیں؟؟؟

المستفتیہ : مسکان فاطمہ



وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 الجواب بعون الملک العزیز الوہاب


"اقتلوا " و  " اتبعوا " کی باعتبار سوال تشریح 


اقتلوا و اتبعوا ؛ دونوں فعل امر جمع مذکر حاضر کے صیغے ہیں  پہلا باب نَصَرَ یَنْصُرُ سے اور دوسرا باب اِفْتِعَال سے اور امر فعل مضارع سے بنایا جاتا ہے تو گویا یہ بالترتیب تقتلون و تتبعون سے بناے گئے ہیں بایں طور کہ  علم صرف کا قاعدہ ہے کہ جب  امر بناتے ہیں تو مضارع سے علامت مضارع کو گرا دیتے ہیں بعدہ  دیکھتے ہیں کہ متحرک ہے یا ساکن اگر متحرک ہے تو فعل مضارع کے آخر کو ساکن کر دیتے ہیں جیسے "تُقاتلُ" سے "قاتلْ" اور اگر آخر میں نون اعرابی یا حرف علت ہو تو گر جاتا ہے " تُقاتلُون" سے "قاتِلوا " اور "تُراعِی" سے "راعِ " اور بعد حذف علامت مضارع ساکن ہے تو ابتداء میں ہمزۂ وصل لاتے  ہیں چونکہ ہمزہ وصل ساکن ہوتا ہے اب ساکن سے ابتداء ہو نہیں سکتی اس لیے ہمزہ وصل پر حرکت کی ضرورت پیش آتی ہے  تو ہمزہ وصل کی حرکت کے لیے صرف کا قاعدہ ہے کہ عین کلمہ کو دیکھیں اگر عین کلمہ مضموم  ہے تو ہمزہ وصل مضموم لاتے ہیں جیسے "تَقْتُلُ" سے "اُقْتُلْ "اور اگر مفتوح یا مکسور ہے تو ہمزہ وصل مکسور لاتے ہیں اور آخر کو ساکن کر دیتے ہیں جیسے "تَجْتَنِبُ "سے "اِجْتَنِبْ"  اگر حرف علت اور نون اعرابی نہ ہو تو  ؛ اور اگر یہ ہوں تو گرا دۓ جاتے ہیں جیسے "تَتَّبِعُوْنَ "سے "اِتَّبِعُوْا" اور "تَرْمِی" سے "اِرْمِ" ؛ اب رہی ان کے ہمزہ پر فتحہ نہ لانے کی وجہ تو وہ یہ ہے کہ بعض صورتوں میں اس کا دیگر صیغ سے التباس لازم آئے گا

 مثلاً واحد متکلم و اسم تفضیل و ماضی وغیرہ مگر باب افعال کے امر پر فتحہ ضرور آتا ہے کیوں کہ وہ وصلی نہیں قطعی اور اصلی ہوتا ہے 


لہٰذا مذکورہ دونوں صغوں کے ہمزے پر فتحہ کا آنا  التباس و مخالفت قانون صرفی کو شامل ہوگا جو قواعد عربیہ میں جائز نہیں تو ان پر فتحہ آنے کی کوئی صورت نہیں   اب رہی یہ بات کہ پہلے کے ہمزہ پر ضمہ یعنی پیش اور دوسرے کے ہمزہ پر کسرہ یعنی زیر کیوں ہے تو اس کی وجہ اوپر کے قواعد سے صاف واضح ہے کہ پہلا ایسے فعل سے بنا ہے کہ جس کا عین کلمہ مضموم ہے اس وجہ سے اس کے ہمزہ پر ضمہ (پیش)ہے اور دوسرا ایسے فعل سے بنا ہے جس کا عین کلمہ مکسور ہے اس وجہ سے اس کے ہمزہ پر کسرہ (زیر)ہے


واللہ اعلم

 ابو عبداللہ محمد ساجد چشتی شاہ جہاں پوری خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney