غصے میں لفظ طلاق کہا نیت نہیں تھی تو تو طلاق ہوا یا نہیں؟


سوال نمبر 2028

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں زید کی شادی کو ایک سال ہوگیا ہے اس کے بچے نہیں ہیں، گھریلو جھگڑے کے وجہ سے اس نے اپنی بیوی کو فون پر تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہہ دیا، تو کیا طلاق واقع ہوگئی؟ واضح رہے کہ فون پر گفتگو شوہر ہی نے کی تھی جس کا وہ اقرار بھی کررہا ہے لیکن کہہ رہا ہے کہ میرا مقصد طلاق دینا نہیں تھا بلکہ غصے میں ڈرانے دھمکانے کیلئے کہہ دیا تھا اور الفاظ طلاق جب کہے تو نیت میں کوئی اجنبی خاتون نہیں تھی بلکہ اپنی بیوی کو ہی غصہ میں کہہ دیا، جبکہ وہ ہوش وحواس میں تھا، اب وہ کہہ رہا ہے کہ میں اس بات کو کہہ کر پچھتا رہا ہوں، رو رہا ہوں۔ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ جلد از جلد سوال کا جواب عنایت فرمائیں، بڑا کرم ہوگا۔

سائل: محمد صدام حسین، کلکتہ





وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

صورتِ مسئولہ میں برتقدیر صدق سائل زید کی زوجہ پر طلاق مغلظہ یعنی تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور اب وہ عورت حلالہ کے بغیر اس کیلئے ہرگز ہرگز حلال نہیں ہوسکتی ہے یعنی حلالہ کے بغیر وہ اس سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا ہے، اور شوہر بیک وقت تین طلاقیں دینے کے سبب گنہگار بھی ہوا ہے، لہٰذا وہ اپنے اس عمل سے توبہ بھی کرے، مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ طلاق میں اضافت کا پایا جانا ضروری ہے اب خواہ وہ اضافتِ لفظی ہو یا معنوی یا پھر کسی ایسے کلام کے جواب میں ہو جس میں اضافت مذکور تھی، اور پوچھی گئی صورت میں شوہر کے کلام میں اضافتِ لفظی تو موجود نہیں لیکن شوہر کا یہ کہنا کہ:میں نےغصے میں ڈرانے دھمکانے کیلئے کہہ دیا تھا اور الفاظ طلاق جب کہے تو نیت میں کوئی اجنبی خاتون نہ تھی بلکہ اپنی بیوی کو ہی غصہ میں کہہ دیا اور میں اس بات کو کہہ کر پچھتا رہا ہوں وغیرہ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کی مراد بیوی ہی کو طلاق دینا تھی، لہٰذا اضافتِ معنوی پائے جانے کی وجہ سے اس کی بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہے۔چنانچہ علامہ ابن نجیم حنفی علیہ الرحمہ متوفی٩٧٠ھ لکھتے ہیں:فلو قال طالق فقیل لہ من عنیت؟ فقال:امراتی، طلقت امراتہ۔

(البحر الرائق،کتاب الطلاق،باب الطلاق،٤٤٢/٣)

یعنی،اگر شوہر نے کہا "طالق"(طلاق یافتہ) اس سے پوچھا گیا کہ تیری کیا مراد ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میری بیوی مراد ہے تو اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔

   اور زید نے چونکہ صریح الفاظ کے ذریعے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دی ہے، اگرچہ ڈرانے دھمکانے کی نیت سے اس نے الفاظ کہے ہیں، جب بھی طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہے۔چنانچہ امام احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ متوفی١٣٤٠ھ لکھتے ہیں:طلاق جب دی جائے واقع ہوجائے گی خواہ دھمکی مقصود ہو یا کچھ اور، صریح لفظ محتاج نیت نہیں ہوتے ان سے نیت کرے یا نہ کرے طلاق ہوجاتی ہے، اگر وہ تین طلاقیں دینے یا لکھنے کا مقر ہے اور عذر یہ بیان کرتا کہ دھمکی مقصود تھی طلاق کی نیت نہ تھی تو بلاشک تین طلاقیں ہوگئیں۔

(فتاوی رضویہ،کتاب الطلاق،٣٩٥/١٢)

   اسی طرح غصہ میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے بلکہ اکثر غصہ ہی میں دی جاتی ہے، کوئی پیار سے طلاق نہیں دیتا۔چنانچہ علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی٨٥٥ھ لکھتے ہیں:حکم الطلاق فی الغضب فانہ یقع۔

(عمدة القاری،کتاب الطلاق،باب الطلاق فی الاغلاق۔۔۔الخ،٢٥٩/١٤)

یعنی،غصہ کی حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

   اور امام احمد رضا خان حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:غصہ مانع وقوع طلاق نہیں، بلکہ اکثر وہی طلاق پر حامل ہوتا ہے، تو اسے مانع قرار دینا گویا حکمِ طلاق کا راساً ابطال ہے، ہاں اگر شدتِ غیظ وجوشِ غضب اس حد کو پہنچ جائے کہ اس سے عقل زائل ہوجائے، خبر نہ رہے کیا کہتا ہوں زبان سے کیا نکلتا ہے، تو بیشک ایسی حالت کی طلاق ہرگز واقع نہ ہوگی۔

(فتاوی رضویہ،کتاب الطلاق،٣٨٣/١٢)

   لہٰذا ثابت ہوا کہ زید پر وہ عورت حُرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے اور اب وہ حلالہ کے بغیر اس کیلئے ہرگز ہرگز حلال نہیں ہوسکتی ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ۔(البقرة،٢٣٠/٢)

ترجمہ کنز الایمان:پھر اگر تیسری طلاق اسے دی، تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

اتوار، ١٨/رجب١٤٤٣ھ۔٢٠/فروری٢٠٢٢م







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney