حالت نماز میں نیت بدل دی تو کیا حکم ہے؟


 سوال نمبر 2157

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید نے ظہر کی چار رکعت نماز سنت پڑھی پھر چار رکعت فرض پڑھنے تھے

 لیکن زید نے بھول سے چار رکعت سنت کی نیت کی دو رکعت پڑھی ہی تھیں اور پھر خیال آیا کہ میں سنت تو پڑھ چکا ہوں تو نماز کے اندر ہی فرض کی نیت کرلی دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ نماز سنت ہوئیں یا فرض جواب عنایت فرمائیں ؟

المستفتی : عبدالحفیظ نوری ضلع پریاگ راج ٹونگا رضا نگر اترپردیس



وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاته 

الجواب بعون الملک الوہاب 

صورت مستفسرہ میں زید نے وقت تحریمہ سنت کی نیت کی تھی تو سنت ہی ہوئی کیونکہ تکبیر تحریمہ کے بعد نیت کا اعتبار نہیں ، نماز بہ نیت سنت شروع کی پھر درمیان نماز میں یہ خیال آیا کہ مجھے فرض پڑھنے تھے اب فرض کی نیت پر نماز پوری کی تو سنت ادا ہوگی نا کہ فرض ، 


حضرت امام برہان الدین ابو الحسن علی ابو بکر الفرغانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں !

" والمتقدم على التكبير كالقائم عنده إذا لم يوجد ما يقطعه وهو عمل لا يليق بالصلاة ولا معتبر بالمتأخرة منها عنه "

" یعنی، اور جو نیت تکبیر سے پہلے کرلی وہی تکبیر کے وقت قائم ہوگی اس شرط کے ساتھ کے ان کے درمیان کوئی عمل نہ پایا جائے جو ان کو ختم کرنے والا ہوں جو نماز کے شیان شان نہ ہو ، اور جو تکبیر نیت کے بعد کی اس کا اعتبار نہیں "

( الھدایة الاولین المجلد الاول باب شروط الصلاة التي تتقدمها )


حضرت علامہ نظام الدین علیہ الرحمۃ والرضوان متوفی ۱۱۶۱ ھ، فرماتے ہیں !

" رَجُلٌ افْتَتَحَ الْمَكْتُوبَةَ فَظَنَّ أَنَّهَا تَطَوُّعٌ فَصَلَّى عَلَى نِيَّةِ التَّطَوُّعِ حَتَّى فَرَغَ فَالصَّلَاةُ هِيَ الْمَكْتُوبَةُ وَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ بِالْعَكْسِ فَالْجَوَابُ بِالْعَكْسِ ،

یعنی، کسی شخص نے فرض نماز شروع کی پھر اس کو یہ گمان ہو گیا کہ نفل پڑھتا ہوں اور نفل کی نیت پر نماز تمام کرلی تو وہ نماز فرض ادا ہوئی اور اگر اس کے برعکس ہوا تو جواب بھی برعکس ہوگا "

( فتاوی ھندیه المجلد الاول الباب الثالث في شروط الصلاة الفصل الرابع في النية ) 


حضور صدرالشریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں!

" نماز بہ نیت فرض شروع کی پھر درمیان نماز میں یہ گمان کیا کہ نفل ہے اور بہ نیت نفل نماز پوری کی تو فرض ادا ہوئے اور اگر بہ نیت نفل شروع کی اور درمیان میں  فرض کا گمان کیا اور اسی گمان کے ساتھ پوری کی، تو نفل ہوئی "

(بہار شریعت جلد اول صفحہ ۴۹۸ مکتبہ دعوت اسلامی )


حضرت امام صدرالشریعہ عبید اللہ بن مسعود المحبوبی البخاری الحنفی متوفی ۷۴۷ ھ فرماتے ہیں!

" ویکفی للنفل والتراویح وسائر السنن نیة مطلق الصلوۃ وللفرض شرط تعیینه ولا نیة عدد رکعاته وللمقتدی نیة صلاته واقتدائه "

اور نفل نماز تراویح کی نماز اور تمام سنت نمازوں کے لئے مطلق نماز کی نیت کافی ہے اور فرض نماز کے لیے تعیین شرط ہے البتہ تعداد رکعات کی تعیین شرط نہیں اور مقتدی کے لئے (فرض) نماز اور اقتدا کی نیت شرط ہے ،

( شرح الوقایة المجلد الاول باب شروط الصلوۃ )


واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبــــــــــــــــہ

محمد معراج رضوی براہی سنبھل یوپی الہند 

۱۵ ، ذو الحجہ ، ۱۴۴۳ ھ ،







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney