سوال نمبر 2185
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ امام کو کسی نمازی کے لیے نماز میں طول دینا کیسا ہے، نماز واجب الاعادہ ہوگی یا نہیں؟
سائل: عبداللہ (راجستھان)
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب بعون اللہ و رسولہ
اگر امام آنےوالےکو جانتاہے اور اسکا لحاظ کرتے ہوۓ قرأت یا کسی بھی رکن وغیرہ کو طول دیا تب تو یہ فعل امام کا مکروہ تحریمی ہے جسکی وجہ سے نماز کا لوٹانا ضروری ہے!
اور اگر جانتا نہیں بلکہ ایسے ہی حصول ثواب کےلیےطول دےرہاہے تب کوٸی حرج نہیں لیکن اتنی طوالت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ مصلیان پریشان ہونے لگ جاٸیں!
امام علاءالدین أبی بکربن مسعود کاسانی حنفی متوفی ٥٨٧ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔
وَكُرِهَ تَحْرِيمًاإطَالَةُ رُكُوعٍ أَوْ قِرَاءَةٍ لِإِدْرَاكِ الْجَائِي: أَيْ إنْ عَرَفَهُ وَإِلَّا فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَلَوْ أَرَادَ التَّقَرُّبَ إلَى اللَّهِ تَعَالَى لَمْ يُكْرَهْ اتِّفَاقًا لَكِنَّهُ نَادِرٌ وَتُسَمَّى مَسْأَلَةَ الرِّيَاءِ، فَيَنْبَغِي التَّحَرُّزُ عَنْهَا
الدرالمختار و ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، المجلدالثانی ، ص ١٩٨
{بیروت لبنان}
حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریرفرماتےہیں ۔۔۔۔
: کسی آنے والے کی وجہ سے رکوع یا قراء ت میں طول دینا مکروہ تحریمی ہے، جب کہ اسے پہچانتا ہو یعنی اس کی خاطر ملحوظ ہو اور نہ پہنچانتا ہو تو طویل کرنا افضل ہے کہ نیکی پر اعانت ہے، مگر اس قدر طول نہ دے کہ مقتدی گھبرا جائیں
بہارشریعت ، حصہ٣ ، ص ٥٢٦
{قادری کتاب گھر}
وااللّٰه و رسولہ اعلم
کتبـــــہ
عبیـــداللّٰه حنفــی بریلوی مقـام دھــونرہ ٹانڈہ ضـــلع بریلی شــریف {یوپی}
٢٤محرم الحرام ٤٤٤١ھ بروزمنگل
0 تبصرے