حلالہ کسی نابالغ کے ساتھ ہوسکتا ہے یا نہیں؟

سوال نمبر 2304

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ حلالہ کسی نابالغ کے ساتھ ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جواب عنایت کریں۔
(المستفتی:حکمت رضا، میر گنج)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:نابالغ جبکہ جماع کے قابل ہو تو اس کا کیا ہوا حلالہ درست ہے ورنہ نہیں البتہ نابالغ چونکہ طلاق نہیں دے سکتا ہے لہٰذا عورت اس کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی دوسرے سے نکاح نہیں کرسکے گی ہاں اگر وہ بعدِ نکاح عورت کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرکے فوت ہوجائے یا بالغ ہونے کے بعد اسے طلاق دے دے اگرچہ قبلِ بلوغت وطی کی ہو تو عورت اس کی عدّت گزارنے کے بعد اپنے سابق شوہر یا اس کے علاوہ سے نکاح کرسکتی ہے۔چنانچہ علامہ ابو الحسین احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی٤٢٨ھ لکھتے ہیں:والصبی المراھق فی التحلیل کالبالغ۔
(مختصر القدوری،ص٣٢٧)
یعنی،مراہق بچہ حلال کرنے میں بالغ کی طرح ہے۔
   اور علامہ محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی١٠٠٤ھ اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی١٠٨٨ھ لکھتے ہیں:(لا) ینکح (مطلقة بھا) ای بالثلاث (حتی یطأھا غیرہ ولو) الغیر (مراھقا) یجامع مثلہ (بنکاح)۔ملخصًا
(تنویر الابصار وشرحہ الدر المختار،٤٠٩/٣۔٤١١)
یعنی،اپنی مُطلّقہ ثلاثہ سے نکاح نہیں کرسکتا ہے حتٰی کہ دوسرا شخص اس سے نکاح کرکے وطی کرے اگرچہ وہ مراہق بچہ ہو یعنی اس جیسا لڑکا جماع کرتا ہو۔
   اور اِس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:(قولہ: ولو مراھقا) ھو الدانی من البلوغ نھر ولا بد ان یطلقھا بعد البلوغ لان طلاقہ غیر واقع در منتقی عن التتارخانیة (قولہ: یجامع مثلہ) تفسیر للمراھق ذکرہ فی الجامع، وقیل ھو الذی تتحرک آلتہ ویشتھی النساء کذا فی الفتح، والأولی ان یکون حرا بالغا: فان الانزال شرط عند مالک کما فی الخلاصة۔ملخصًا
(رد المحتار علی الدر المختار،٤١٠/٣)
یعنی،مراہق سے مراد قریب البلوغ بچہ ہے(نھر الفائق) اور ضروری ہے کہ وہ عورت کو بعدِ بلوغ طلاق دے کیونکہ نابالغ کی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے(در منتقٰی عن تتارخانیة) اس کی مثل جماع کرسکے یہ مراہق کی تفسیر ہے اسے ”الجامع“ میں ذکر کیا ہے، اور ایک قول کے مطابق مراہق وہ بچہ ہے جس کا عضوِ تناسل حرکت کرتا ہو اور عورتوں کی خواہش رکھتا ہو اِسی طرح ”فتح القدیر“ میں ہے اور بہتر یہ ہے کہ آزاد بالغ شخص کی وطی ہو کیونکہ امامِ مالک علیہ الرحمہ کے نزدیک انزال شرط ہے جیسا کہ ”خلاصة الفتاوی“ میں ہے۔
   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:دوسرا نکاح مراہق سے ہوا (یعنی ایسے لڑکے سے جو نابالغ ہے مگر قریب بلوغ ہے اور اُس کی عمر والے جماع کرتے ہیں) اور اُس نے وطی کی اور بعدِ بلوغ طلاق دی تو وہ وطی کہ قبل بلوغ کی  تھی حلالہ کے لیے کافی ہے مگر طلاق بعدِ بلوغ ہونی چاہیے کہ نابالغ کی طلاق واقع ہی نہ ہوگی مگر بہتر یہ ہے کہ بالغ کی وطی ہو کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انزال شرط ہے اور نابالغ میں انزال کہاں۔
(بہار شریعت،١٨٠/٢)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:۔
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
جمعہ، ١٥/ربیع الآخر،١٤٤٤ھ۔١١/نومبر،٢٠٢٢م








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney