ایک بیوہ، تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں تو کیسے مال تقسیم ہو

سوال نمبر 2330

 الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اِس مسئلہ میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے اس کے تقریبًا تیرہ لاکھ روپے بینک میں ہیں، اُس کی ایک بیوہ، تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، تو اِس وراثت کی رقم کو کس طرح تقسیم کیا جائے اور کس کے حصے میں کتنی رقم آئے گی؟

(سائل:اکرام احمد، ڈیفینس،کراچی)

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیر صدقِ سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا مکمل ترکہ چونسٹھ(٦٤) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو آٹھواں حصہ یعنی آٹھ حصے ملیں گے کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔چنانچہ قُرآنِ کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:۱۲/۴) 

ترجمہ:پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔(کنز الایمان)

   اور بقیہ چھپن(٥٦) حصے مرحوم کی اولاد کے درمیان تقسیم ہوں گے اور وہ اِس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو چودہ، چودہ(١٤،١٤) حصے ملیں گے اور ہر ایک بیٹی کو سات، سات(٧،٧) حصے ملیں گے کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی بنسبت دُگنا ہوتا ہے۔چنانچہ قُرآنِ کریم میں ہے:یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔(النساء:١١/٤)

ترجمہ، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔(کنز الایمان)

    لہٰذا مرحوم کی کُل رقم چونسٹھ پر تقسیم کریں پس جو جواب آئے گا وہ ایک حصہ ہوگا اور پھر ہر ایک وارث کو اُن کے حصوں کے مطابق رقم دے دیں۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ

محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی

جمعرات،١٣/جمادی الاولیٰ،١٤٤٤ھ۔٨/دسمبر،٢٠٢٢ء



مسائل شرعیہ کے جملہ فتاوی کے لئے یہاں کلک کریں

فتاوی مسائل شرعیہ کے لئے یہاں کلک کریں 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney