بیٹھ کر نفل پڑھے تو رکوع میں کتنا جھکے؟

سوال نمبر 2329

 السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ نفل نماز کچھ لوگ بیٹھ کر پڑھتے ہیں حالتِ رکوع میں سرین بہت ہی زیادہ اٹھالیتے ہیں کیا یہ درست ہے اور سرین اٹھانا چاہیے یا نہیں؟

(سائل:حافظ انظار عالم، ویسٹ بنگال)

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل یعنی برابر آجائے اور اِس قدر کیلئے سرین اٹھانے کی حاجت نہیں لہٰذا سرین اٹھانا فعلِ عبث میں داخل ہونے کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے جس سے بچنا چاہیے۔چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:وفي حاشية الفتال عن البرجندي: ولو كان يصلي قاعدا ينبغي أن يحاذي جبهته قدام ركبتيه ليحصل الركوع. اهـ. قلت: ولعله محمول على تمام الركوع، وإلا فقد علمت حصوله بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظهر تأمل۔(رد المحتار علی الدر المختار،٤٤٧/١)

یعنی،برجندی کے حوالے سے ”حاشیہ فتال“ میں ہے کہ اگر کوئی بیٹھ کر نماز پڑھے تو اپنی پیشانی کو گھٹنوں کے برابر جھکائے تاکہ رکوع حاصل ہوجائے اھ (علامہ شامی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ شاید یہ کامل رکوع پر محمول ہو کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ رکوع سر کو صرف جھکا دینے سے یعنی ساتھ کچھ پیٹھ کو جھکانے سے ادا ہوجاتا ہے، غور کرو۔

   اور امام احمد رضا خان حنفی متوفی١٣٤٠ھ لکھتے ہیں:رکوع میں قدر واجب تو اسی قدر ہے کہ سرجھکائے اور پیٹھ کو قدرے خم دے مگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسکا درجہ کمال و طریقہ اعتدال یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل آجائے اس قدر کے لئے سرین اٹھانے کی حاجت نہیں تو قدر اعتدال سے جس قدر زائد ہوگا وہ عبث و بیجا میں داخل ہو جائے گا اور نماز میں جو ایسا فعل کیا جائے گا لااقل(یعنی کم از کم) ناپسند مکروہ تنزیہی ہوگا۔(فتاوی رضویہ،٣٦/٦)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:۔

محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی

ہفتہ،١٥/جمادی الاولیٰ،١٤٤٤ھ۔١٠/دسمبر،٢٠٢٢ء


مسائل شرعیہ کے جملہ فتاوی کے لئے یہاں کلک کریں

فتاوی مسائل شرعیہ کے لئے یہاں کلک کریں 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney