پرانا قبلہ کب بدلا اور کیوں؟

 السلامُ علیکم 


حضور ایک سوال تھا کہ جو پرانا قبلہ تھا کس وقت بدلا اور کیوں اور کون سی آیت نازل ہوئی تھی تھوڑا اسکا وضاحت کریں مہربانی ہوگی


المستفتی ۔۔ شمیم رضا ، مقام جھارکھنڈ

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

الجواب بعون الملک القدوس 

اولا یہ ذہن نشیں کرلیں کہ پرانا قبلہ کعبہ ہی ہے!

البتہ بیت مقدس حضرت سلیمان یا حضرت موسیٰ علیھماالسلام کےزمانے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمانےتک قبلہ رہا اسکے علاوہ دیگر انبیاء کرام کا قبلہ کعبہ تھا 


اور ہمارے آقا سرورکاٸنات ﷺ کے زمانے میں کم و بیش سولہ مہینے تک بیت مقدس قبلہ رہا بعدہ پھر کعبہ قبلہ ہوگیا اور کعبہ ہی قبلہ رہےگا!


حضرت نبی کریم ﷺ جب مکہ شریف سے مدینہ شریف میں تشریف لائے تو آپکو حکم دیا گیا کہ بیت مقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں  اورحضورﷺ   نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل فرماتےہوۓ بیت مقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کرنا شروع فرمادیں مگر حضور ﷺ کی دلی خواہش یہ تھی ہمارا قبلہ کعبہ ہو جاۓ کیوں کہ اس میں وجہ یہ تھی کعبہ شریف حضرت ابراہیم اور کٸ انبیاء کرام علیھم السلام کاقبلہ تھا  اور تفاسیر میں یہ بھی وجہ مذکور ہے کہ حضورﷺ اور آپ کےصحابہ  بیت مقدس کی طرف منہ کر نماز پڑتےتھے یہودی فخریہ اعلان کرتے پھرتے کہ یہ مسلمان ہمارے دین کی تکذیب و تردید کرتے رہتے مگر نماز ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں تو ایک دن بحالت نماز حضورﷺ  آسمان کی طرف بار بار دیکھ رہے تھے اور چاہ رہےتھے ہمارا رب کعبہ کو ہمارا قبلہ بنادے اسی وقت بحالت نماز آپ پر وحی یعنی آیت کریمہ نازل ہوٸی کہ آپکے رب کو وہی پسند ہے جس میں آپ کی رضا ہے لہذا آپکی مرضی و رضا کے مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیاہے پھر نبی کریم ﷺنے بحالت نماز  ہی  کعبہ کی طرف منھ پھیر لیا جب صحابہ نے یہ منظر دیکھا تو انہوں  نے بھی حضورﷺ کی پیروی کی! اور باقی نماز قبلہ کی جانب منھ کرکے مکمل کی گٸ!


جیساکہ رب قدیر قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔۔۔


قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ


 کنز الایمان ، سورہ بقرہ ، آیت١٤٤


ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانوتم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو اور وہ جنہیں کتاب ملی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کے کوتکوں سے بے خبر نہیں


کنز الایمان ، سورہ بقرہ ، آیت١٤٤


مذکورہ آیات جلیلہ کی تفسیر میں ،، امام محیی السنہ

ابو محمد الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ھ تحریر فرماتےہیں۔۔۔


وذلك أن رسول اللہ ﷺ وأصحابه كانوا بمكة إلى الكعبة فلما هاجر إلى المدينة أمره الله أن يصلي نحو صخرة بيت المقدس ليكون أقرب إلى تصديق اليهود إياه إذا صلى إلى قبلتهم مع ما يجدون من نعته في التوراة فصلى بعد الهجرة ستة عشر أو سبعة عشر شهراً إلى بيت المقدس وكان يحب أن يوجه إلى الكعبة لأنها كانت قبلة أبيه إبراهيم عليه السلام وقال مجاهد: كان يحب ذلك لأجل اليهود لأنهم كانوا يقولون يخالفنا محمدﷺ في ديننا ويتبع قبلتنا فقال لجبريل وددت لو حولني الله إلى الكعبة فإنها قبلة أبي إبراهيم عليه السلام، فقال جبريل: إنما أنا عبد مثلك وأنت كريم على ربك، فسل أنت ربك فإنك عند الله ﷻبمكان فرجع جبريل عليه السلام وجعل رسول الله ﷺ يديم النظر إلى السماء رجاء أن ينزل جبريل بما يحب من أمر القبلة


تفسیر البغوی ،معالم التنزیل ، المجلدالاول ، سورہ بقرہ ، ص ٧٠ تا ٧١

{بیروت لبنان}


واللہ و رسولہ اعلم 

کتبہ 

عبیداللّٰه حنفیؔ بریلوی مقام دھونرہ ٹانڈہ ضلع بریلی شریف {یوپی}

 ٥/محرم الحرام/ ١٤٤٥ھ

٢٤/جولاٸی/ ٢٠٢٣ء



مسائل شرعیہ کے جملہ فتاوی کے لئے یہاں کلک کریں

فتاوی مسائل شرعیہ کے لئے یہاں کلک کریں 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney