تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں تو کس کو کتنا ملے گا؟

سوال نمبر 2434

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید متوفی کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، ایک بیٹے کا انتقال زید کی حیات میں ہی ہوگیا تھا موجودہ وارثوں میں زید کی بیوہ ہندہ، دو بیٹے خالد اور بکر، چار بیٹیاں فرحانہ، خالدہ، فردوس اور شاکرہ ہیں، زید کی کل وراثت تیرہ لاکھ روپے ہے، اب تقسیم کس طرح ہوگی؟ وضاحت فرمائیں۔
(سائل:آفرین انصاری، ممبئی)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیر صدقِ سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا مکمل ترکہ چونسٹھ حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو آٹھواں حصہ یعنی آٹھ حصے ملیں کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔
   چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:۱۲/۴) 
ترجمہ:پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔(کنز الایمان)
   اور بقیہ چھپن حصے مرحوم کی موجودہ اولاد کے درمیان تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر بیٹے کو چودہ، چودہ حصے اور ہر بیٹی کو سات، سات حصے ملیں گے کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی بنسبت دگنا ہوتا ہے۔
   چنانچہ قرآن کریم میں ہے:یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔(النساء:١١/٤)
ترجمہ، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔
(کنز الایمان)
   اور مرحوم سے پہلے انتقال کرجانے والے بیٹے کو مرحوم کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ وارث صرف وہی رشتہ دار بنتے ہیں جو مورث کی وفات کے وقت حیات ہوں۔
   چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ شرائط وراثت کے بیان میں لکھتے ہیں:وجود وارثہ عند موتہ حیا۔
(رد المحتار،کتاب الفرائض،تحت قولہ:علم باصول إلخ،525/10)
وراثت کا حقدار ہونے کے لئے وارث کا مورث کی وفات کے وقت زندہ ہونا شرط ہے۔
   اور امام احمد رضا خان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں:لا حق لابن مات قبل ابیہ فی ترکۃ ابیہ۔
(فتاوی رضویہ،کتاب الوصایا،383/25)
یعنی،باپ سے پہلے انتقال کرجانے والے بیٹے کا باپ کے ترکہ میں کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔
   لہٰذا تیرہ لاکھ روپے میں سے بیوہ کو ایک لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو (162500) روپے، موجودہ ہر بیٹے کو دو لاکھ چوراسی ہزار تین سو پچھتر (284375) روپے اور ہر بیٹی کو ایک لاکھ بیالیس ہزار ایک سو ستاسی اعشاریہ پچاس (142187.5) روپے ملیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اسامہ قادری
پاکستان،کراچی
ہفتہ، 24/محرم، 1445ھ ۔ 12/اگست، 2023ء








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney