ولی تین دن کا راستہ کم وقت میں طے کرلے تو مسافر ہوگا؟

 سوال نمبر 2432

السلام علیکم
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی ولی تین دن کا راستہ پلک جھپکتے طے کرلے تو کیا وہ مسافر مانا جائے گا ایسے ہی کوئی شخص بذریعہ جہاز تین دن کا راستہ ایک ہی دن میں طے کرلے تو کیا وہ مسافر ہوگا؟
(سائل:محمد ازہر نورانی)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:پوچھی گئی دونوں صورتوں میں وہ مسافر ہوگا۔
    چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی1088ھ لکھتے ہیں:لو اسرع فوصل فی یومین قصر۔
(الدر المختار مع شرحہ رد المحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،123/2)
یعنی،اگر کوئی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے تین دن کی مسافت دو دن میں طے کرے تو قصر کرے گا۔
   اس کے تحت علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں:کذلک لو وصل الیہ فی زمن یسیر بکرامۃ لکن استبعدہ فی الفتح بانتفاء مظنۃ المشقۃ وھی العلۃ فی القصر۔
(رد المحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،123/2)
یعنی،یونہی اگر کوئی بہت تھوڑے سے زمانہ میں کرامت کے ذریعے تین دن کی مسافت طے کرے تو قصر کرے گا، لیکن "فتح القدیر" میں اسے بعید خیال کیا ہے؛ کیونکہ مشقت کا محل منتفی ہے اور وہ قصر کی علت ہے۔
   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں:تین دن کی راہ کو تیز سواری پر دو دن یا کم میں طے کرے تو مسافر ہی ہے اور تین دن سے کم کے راستہ کو زیادہ دنوں میں طے کیا تو مسافر نہیں۔
   اور آگے لکھتے ہیں:تین دن کی راہ کو کسی ولی نے اپنی کرامت سے بہت تھوڑے زمانہ میں طے کیا تو ظاہر یہی ہے کہ مسافر کے احکام اس کے لیے ثابت ہوں مگر امام ابن ہمام نے اس کا مسافر ہونا مستبعد فرمایا۔
(بہار شریعت،نماز مسافر کا بیان،742/1)
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ:
محمد اسامہ قادری
پاکستان،کراچی
24/محرم،1445ھ۔12/اگست،2023ء








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney